18/02/2023
نکاح میں لڑکی کی اجازت
محمد رضی الاسلام ندوی
کل مجھے ایک نکاح پڑھانے کا موقع ملا - نکاح کی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ ابھی رجسٹر نکاح کی خانہ پُری نہیں ہوئی ہے - میں نے مشورہ دیا کہ پہلے تمام اندراجات کرکے متعلقہ افراد سے دستخط کروالیے جائیں : دولہا ، دلہن ، دلہن کے والد ، گواہ اول ، گواہ دوم اور مہر کی طے شدہ مقدار بھی درج کردی جائے -
میں نے کہا کہ دلہن کے والد کی موجودگی میں دلہن کے وکیل کی ضرورت نہیں ، لیکن مناسب سمجھیں تو کسی کو بنالیں - کہا گیا کہ جب رجسٹر میں اس کا خانہ ہے تو اسے بھی پُر کرلیا جائے -
تمام دستخط کروالینے کے بعد میں نے خطبۂ نکاح پڑھا - پھر ایجاب و قبول کرانے سے قبل دلہن کے والد سے دریافت کیا : " آپ نے اپنی صاحب زادی سے اجازت لے لی ہے؟ " انھوں نے اثبات میں جواب دیا - میں نے دلہن کا نام ، گواہوں کے نام اور مہر کی تفصیل بتانے کے بعد دولہا سے قبول کروالیا -
نکاح سے فراغت کے بعد ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے : " گواہ لڑکی کے پاس گئے ہی نہیں اور انھوں نے اس کے منھ سے اجازت سنی ہی نہیں ، پھر نکاح کہاں ہوا؟"
میں نے عرض کیا : " لڑکی کے والد صاحب اس مجلس میں موجود ہیں - انھوں نے لڑکی سے اجازت لے لی ہے - ان کی طرف سے ایجاب کافی ہے - اس مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں دولہا نے قبول کیا ہے - یہ کافی ہے -"
انھوں نے فرمایا : " ہماری طرف تو گواہوں کو لڑکی کے پاس لے جایا جاتا ہے اور لڑکی سے بلند آواز سے اجازت لی جاتی ہے ، جسے گواہ سنتے ہیں -"
میں نے عرض کیا : " ہماری طرف تو گواہوں کے ساتھ قاضی بھی لڑکی کے پاس جاتا ہے ، اسے پہلے چھ کلمے پڑھاتا ہے ، پھر اس کی رضامندی لیتا ہے - اس کے بعد نکاح کی مجلس میں آتا ہے تو وہاں بھی پہلے دولہا کو چھ کلمے پڑھاتا ہے ، اس کے بعد خطبۂ نکاح پڑھا کر گواہوں کی موجودگی میں دولہا سے قبول کرواتا ہے - لیکن یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں - جتنا میں نے کیا ہے اتنا کافی ہے - "