Iqbalistan Movement

Iqbalistan Movement Learn Allama Iqbal's message, Love, Khudi, Quran, Rasul Allah sallal laho allihi wassallam seerat.

15/11/2022
08/11/2022

سیاسیاتِ حاضرہ
(دورِ حاضر کا سیاست)

گرچہ دانا حالِ دل با کس نگفت
از تو دردِ خویش نتوانم نہفت

اگرچہ سمجھدار آدمی اپنے دل کی بات کسی کو نہیں بتاتا
مگر میں تجھ سے اپنا درد چھپا نہیں سکتا۔

تا غلامم در غلامی زادہ ام
ز آستانِ کعبہ دور افتادہ ام

چونکہ میں غلام ہوں اور غلامی کے اندر پیدا ہوا ہوں
اس لیے آستانِ کعبہ (اسلام) سے دور جا پڑا ہوں۔

چوں بنامِ مصطفیٰ خوانم درود
از خجالت آب می گردَد وجود

جب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہوں
تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔

عشق میگوید کہ اے محکومِ غیر
سینۂ تو از بتاں مانندِ دیر

عشق مجھ سے کہتا ہے کہ اے غیر کے غلام
بتوں کی وجہ سے تیرا سینہ بتخانہ بنا ہوا ہے۔

تا نداری از محمد رنگ و بو
از درودِ خود میالا نامِ او

جب تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے (اخلاق عالیہ ) کا رنگ و بو اختیار نہیں کر تا
اپنے درود شریف سے ان کے نام کو آلودہ نہ کر۔

از قیامِ بے حضورِ من مپرس
از سجودِ بے سرورِ من مپرس

میری نماز کے قیام بے حضور کی بات نہ پوچھ اور میری سجود بےسرور کی بات نہ پوچھ۔

جلوۂ حق گرچہ باشد یک نفس
قسمتِ مردانِ آزاد است و بس

اللہ تعالیٰ کا جلوہ خواہ ایک لمحہ کے لیے ہو صرف مرد آزاد کو نصیب ہوتا ہے۔

مردے آزادے چو آید در سجود
در طوافش گرم رو چرخِ کبود

آزاد مرد جب سجدے میں گرتا ہے
تو یہ نیلا آسمان اس کے طواف میں سرگرم ہو جاتا ہے۔

ما غلاماں از جلالش بے خبر
از جمالِ لازوالش بے خبر

ہم غلام (ایسے آزاد مرد کے) جلال سے بے خبر ہیں اور (ایسے آزاد مرد کے) لازوال جمال سے نا آشنا ہیں۔

از غلامے لذّتِ ایماں مجو
گرچہ باشد حافظِ قرآں، مجو

ایسے غلام میں خواہ وہ حافظ ‍ قرآن ہو، ایمان کی لذّت تلاش نہ کر۔

مومن است و پیشۂ او آزریست
دین و عرفانش سراپا کافریست

غلام اگرچہ ایمان کا دعویدار ہے مگر اس کا پیشہ بت گری ہے
اس کا دین اور عرفان سراپا کافری ہے

در بدن داری اگر سوزِ حیات
ہست معراجِ مسلماں در صلوۃ

اگر تو اپنے اندر زندگی کا سوز رکھتا ہے
تَو تُو محسوس کرے گا کہ نماز میں مسلمان کی معراج ہے
( اسے نماز میں معراج کی سی کیقیت حاصل ہوتی ہے)۔

ور نداری خوں گرم اندر بدن
سجدۂ تو نیست جز رسمِ کہن

لیکن اگر تو اپنے بدن میں خون گرم (آتشِ یقین) نہيں رکھتا
تو تیرا سجدہ سواۓ ایک پرانی رسم کے اور کچھ نہیں۔

عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دین
عیدِ محکوماں ھجومِ مومنین

آزادوں کی عید سلطنت و دین کے شان و شوکت کا اظہار ہے
جب کہ محکوموں (غلاموں) کی عید صرف مومنوں کا ہجوم ہے

پس چہ باید کرد

05/11/2022

سیاسیات حاضرہ
(دورِ حاضر کا سیاست)

می کند بندِ غلاماں سخت تر
حریّت می خواند او را بے بصر

دور حاضر کا سیاست محکوموں کی زنجیروں کو زیادہ مظبوط بناتا ہے ۔
کم نظر اسے غلاموں کی آزادی سمجھتا ہے

گرمئ ہنگامۂ جمہور دید
پردہ بر روے ملوکیت کشید

جب اس نے عوام کی (تحریک آزادی) کے ہنگامے کی گرمی دیکھی
تو بادشاہت کے چہرے پر پردہ ڈال دیا۔
(جمہوریت کا ڈھونگ رچایا)

سلطنت را جامعِ اقوام گفت
کارِ خود را پختہ کرد و خام گفت

( کہنے لگا ) کہ سلطنت تو مختلف اقوام کو اکٹھا کر دیتی ہے
بات اگرچہ اس نے کچی کہی، لیکن اپنے مطلب کا پکّا رہا۔

در فضایش بال و پَر نتواں گشود
با کلیدش ہیچ در نتواں گشود

ایسی سیاست کی فضا میں غلاموں کے لیے بال و پر کھولنا ممکن نہیں
اس کی چابی سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جا سکتا۔

گفت با مرغِ قفس اے دردمند
آشیاں در خانۂ صیاد بند

(یہ سیاست) مرغ قفس سے کہتا ہے کہ اے دردمند
تو شکاری کے گھر کے اندر آشیانہ بنا لے۔

ہر کہ سازد آشیاں در دشت و مَرغ
او نباشد ایمن از شاہین و چرغ

جو کوئی صحرا و مرغزار میں آشیانہ بناتا ہے
وہ شاہین اور شکرے سے محفوظ نہیں رہتا۔

از فسونش مرغِ زیرک دانہ مست
نالہ ہا اندر گلوے خود شکست

اس کے جادو سے سمجھدار پرندہ جو دانے پر فریفتہ ہے، اپنے نالہ و فریاد کو بلند نہں کرتا۔

حریت خواہی بہ پیچاکش میَفت
تشنہ میر و بر نمِ تاکش میَفت

اگر تو آزادی چاہتا ہے تو ایسے سیاست کے فریب میں نہ آ
پیاسا مر جا لیکن اس کے انگور کے رس کا طالب نہ ہو۔

الحذر از گرمئ گفتارِ او
الحذر از حرفِ پہلو دار او

ایسے سیاست کی گرمئ گفتار اور حرف پہلودار (ذو معنی الفاظ) سے اللہ تعالے بچائے۔

چشم ہا از سرمہ اش بے نور تر
بندۂ مجبور ازو مجبور تر

اس (سیاست) کا سرمہ آنکھوں کو اور زیادہ بے نور کر دیتا ہے
اور اس کی سیاست مجبور انسان کو اور مجبور بنا دیتی ہے۔

از شرابِ ساتگینش الحذر
از قمارِ بدنشینش الحذر

اس کے جام کی شراب اور اس کی بدنیتی پر مبنی کھیل سے اللہ تعالیٰ بچائے۔

از خودی غافل نگردَد مردِ حُر
حفظِ خود کن حُبِ افیونش مخور

مرد آزاد اپنی خودی سے غافل نہیں ہوتا
تو اپنی حفاظت کے لیے ایسے سیاست کی افیون کی گولی نہ کھا۔

پیشِ فرعوناں بگو حرفِ کلیم
تا کند ضربِ تو دریا را دونیم

فرعونوں کے سامنے حضرت موسی علیہ السلام کی طرح بیباکانہ بات کر
تاکہ تیری ضرب سمندر کو دو ثکڑے کر دے۔

پس چہ باید کرد

04/11/2022

آدمیت زار نالید از فرنگ
زندگی ہنگامہ برچید از فرنگ

نوعِ انسان مغرب کے ہاتھوں بڑی ہی نالاں ہے
زندگی نے اہلِ مغرب سے کہیں ہنگامے پائے ہیں

پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق
باز روشن می شوَد ایامِ شرق

تو اے اقوام شرق اب کیا کرنا چاہئیے؟
تا کہ مشرق کے ایّام پھر سے روشن ہو جائیں۔

در ضمیرش انقلاب آمد پدید
شب گذشت و آفتاب آمد پدید

مشرق کے ضمیر میں انقلاب رونما ہوچکا ہے
رات گزر گئی ہے اور سورج طلوع ہوچکا ہے

یورپ از شمشیرِ خود بسمل فتاد
زیر گردوں رسمِ لادینی نہاد

مغرب اپنی تلوار سے خود ہی زخمی ہو چکا ہے اس نے دنیا میں لادینی کی رسم کی بنیاد رکھ دی ہے۔

گُرگے اندر پوستینِ برہ ئی
ہر زماں اندر کمینِ برہ ئی

اس کی حالت اس بھیڑئیے کی سی ہے جس نے میمنے کی کھال پہن رکھی ہے
وہ ہر وقت ایک اور میمنے کی تلاش میں ہے۔

مشکلاتِ حضرتِ انساں ازوست
آدمیت را غمِ پنہاں ازوست

انسانیت کی ساری مشکلات اس کی وجہ سے ہیں اسی کی وجہ سے انسانیت غم پنہاں میں مبتلا ہے۔

در نگاہش آدمی آب و گِل است
کاروانِ زندگی بے منزل است

اس کی نگاہ میں آدمی محض پانی اور مٹی کا مجموعہ ہے
اور زندگی کا قافلہ یونہی بے مقصد رواں ہے۔

ہر چہ می بینی ز انوارِ حق است
حکمتِ اشیا ز اسرارِ حق است

جو کچھ تو دیکھتا وہ حق تعالیٰ کے انوار سے ہے (ان کی صفات کا مظہر ہے) ۔
اشیاۓ کائنات کی ماہیت جاننا گویا اسرار حق سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔

ہر کہ آیاتِ خدا بیند، حُر است
اصلِ ایں حکمت ز حکمِ "انظر" است

جو بھی حق تعالیٰ کی آیات دیکھتا ہے وہ مرد آزاد ہے
اس حکمت کی حقیقت "انظر" کے حکم پر مبنی ہے۔

"انظر" قرآنی تلمیح ہے، مطلب یہ کہ انسان کو چاہئے کہ وہ نظام فطرت کا بغور مطالعہ کرے

بندۂ مومن ازو بہروز تر
ھم بہ حالِ دیگراں دلسوز تر

مومن نے اس حکمت سے وافر حصّہ پایا ہے
مگر وہ اس کے ساتھ دوسرے انسانوں کے لیے اور زیادہ ہمدرد ہو جاتا ہے۔

علم چوں روشن کند آب و گِلش
از خدا ترسندہ تر گردَد دلِش

جب یہ علم و فن اس کی عقل کو روشن کرتا ہے
تو اس قلب میں اور زیادہ خوف خدا جا گزیں ہو جاتا ہے۔

علمِ اشیا خاکِ ما را کیمیاست
آہ در افرنگ تاثیرش جداست

اشیائے کائنات کا علم ہماری خاک کے لئے کیمیا ہے
مگر افسوس کہ اہل مغرب پر اس کی تاثیر مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔

عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت
چشمِ او بی نم، دلِ او سنگ و خشت

اس کے عقل و فکر نے اچھی اور بری کا امتیاز چھوڑ دیا۔
اس کی آنکھ بے نم ہو گئی اور دل پتھر کی طرح سخت ہو گیا۔

علم ازو رسواست اندر شہر و دشت
جبرئیل از صحبتش ابلیس گشت

اس کی وجہ سے علم و فن آبادی اور بیابان میں رسوا ہو گیا ہے۔
اس کی صحبت میں رہ کر ملکوتی علوم ابلیسی بن چکے ہیں۔

دانشِ افرنگیاں تیغے بدوش
در ہلاکِ نوعِ انسان سخت کوش

اہل مغرب کی دانش کندھے پر تلوار رکھے نوع انسان کی ہلاکت کے در پے ہے۔

با خساں اندر جہانِ خیر و شر
در نسازَد مستئ علم و ہنر

یہ دنیا جو خیر و شر کا میدان جنگ ہے
اسکے اندر علم و حکمت کی مستی کمینوں کے لیے سازگار نہیں ۔

آہ از افرنگ و از آئینِ او
آہ از اندیشۂ لا دینِ او

افسوس ہے مغرب پر اور اس کے آئین پر
افسوس ہے اس کے لادین فکر پر

علمِ حق را ساحری آموختند
ساحری نے کافری آموختند

انہوں نے حق و صداقت کے علم کو جادو گری سکھادی ہے
جادو گری نہیں بلکہ کافری سکھا دی ہے۔

ہر طرف صد فتنہ می آرد نفیر
تیغ را از پنجۂ رہزن بگیر

اس نے ہر طرف سینکڑوں فتنے برپا کر دیئے ہیں۔ اس رہزن کے ہاتھ سے تلوار چھین لینی چاہئیے۔

اے کہ جاں را باز می دانی ز تن
سحر ایں تہذیبِ لا دینی شکن

اے مسلمان تو جو روح کو بدن سے الگ سمجھتا ہے
اٹھ اور اس لادین تہذیب کے جادو کو توڑ دے۔

روحِ شرق اندر تنش باید دمید
تا بگردَد قفلِ معنی را کلید

مغرب کے بدن میں مشرق کی روح پھونکنی چاہئیے
تا کہ قفل معانی (حقیقت) کے لیے چابی ثابت ہو۔

عقل اندر حکمِ دل یزدانی است
چوں ز دل آزاد شُد شیطانی است

عقل اگر دل کے حکم کے اندر رہے تو وہ خدائی قوّت ہے
اگر دل سے آزاد ہو جائے تو شیطانی قوّت بن جاتی ہے۔

پس چہ باید کرد

16/09/2022

مرا براہِ طلب بار در گل است ہنوز
کہ دل بہ قافلہ و رخت و منزل است ہنوز

راہ طلب میں ابھی تک میں علائق دنیا میں گرفتار ہوں
ابھی تک میرا دل قافلہ ، سامان اور منزل کے چکر میں ہے۔

کجا ست برق نگاہے کہ خانماں سوزد
مرا با معاملہ با کشت و حاصل است ہنوز

کہاں ہے وہ بجلی جیسی نگاہ جو میرا گھر بار جلا دے
ابھی تک میں کھیتی اور اس کی پیداوار کی فکر میں گرفتار ہوں۔

یکے سفینۂ ایں خام را بہ طوفان دہ
ز ترسِ موج نگاہم بساحل است ہنوز

مجھ خام کی کشتی کو ذرا طوفان میں ڈال دیجئیے
کہ موجوں کے ڈر سے میں ابھی ساحل کی جانب دیکھ رہا ہوں۔

تپیدن و نہ رسیدن چہ عالمے دارد
خوشا کسے کہ بہ دنبال محمل است ہنوز

تڑپنا اور مقصود تک نہ پہنچنا ، کیا لطف رکھتا ہے!
خوش نصیب ہے وہ شخص جو ابھی محمل کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔

کسے کہ از دو جہاں خویش را بروں نشناخت
فریب خوردۂ ایں نقشِ باطل است ہنوز

جس شخص نے اپنے آپ کو دونوں جہانوں سے الگ نہیں پہچانا
وہ ابھی تک اس نقش باطل (دنیا) کا فریب خودرہ ہے۔

نگاہِ شوق تسلی بہ جلوۂ نہ شود
کجا برم خلشے را کہ در دل است ہنوز

ایک جلوے سے میری نگاہ شوق کی تسلی نہیں ہوئی
اس خلش کا کیا علاج جو ابھی تک میرے دل میں موجود ہے۔

حضورِ یار حکایت دراز تر گردید
چنانکہ ایں ہمہ نا گفتہ در دل است ہنوز

محبوب کے حضور بات بہت لمبی ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی ان کہی باتیں دل میں رہ گئیں ہیں۔

زبورِ عجم

31/07/2022

تو شمشیرے ز کامِ خود بروں آ
بروں آ، از نیامِ خود بروں آ

تو تلوار ہے اپنی نیام سے باہر آ، باہر آ، اپنی نیام سے باہر آ۔

نقاب از ممکناتِ خویش برگیر
مہ و خورشید و انجم را برگیر

اپنی ممکنات سے پردہ ہٹا، چاند سورج، اور ستاروں کو مسخر کر۔

شبِ خود روشن از نورِ یقیں کن
یدِ بیضا بروں از آستیں کن

اپنی ذات کو نور یقین سے روشن کر، اپنی آستین سے ید بیضا (روشن ہاتھ) باہر نکال۔

کسے کو دیدہ را بر دل گشود است
شرارے کِشت و پروینے درود است

جس نے اپنی نگاہ دل پر رکھی، اس نے شرر بویا اور پروین (ستارہ) حاصل کیا۔

شرارے جستۂ گیر از درونم
کہ من مانندِ رومی گرم خونم

میرے اندر سے اٹھتے ہوئے شرارے کو لے لے میں رومی رح کی مانند گرم خون ہوں
(میرے اندر شرارے نکل رہے ہیں۔)

وگرنہ آتش از تہذیبِ نو گیر
برونِ خود بیفروز، اندروں مِیر

اگر مجھ سے کچھ نہیں لیتا تو پھر نئی تہذیب کی آگ لے لے
اور اس سے اپنا ظاہر چمکا اور اندر سے مر جا۔

زبورِ عجم

28/07/2022

قلب را از صبغة اللہ رنگ دہ
عشق را ناموس و نام و ننگ دہ

اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ دے
اور اس طرح اپنے عشق کو ننگ و ناموس و پہچان عطا کر

طبعِ مسلم از محبت قاہر است
مسلم ار عاشق نباشد کافر است

مسلمان کی فطرت میں عشق الہی سے قاہری پیدا ہوتی ہے،
اگر مسلمان عاشق نہیں تو وہ کافر ہے
(اور وہ ایمان والے ان کی محبت اللہ تعالیٰ کے لیے بہت شدید ہے - قرآن)

تابعِ حق دیدنش نا دیدنش
خوردنش، نوشیدنش، خوابیدنش

اس کا دیکھنا نہ دیکھنا ، کھانا پینا ، سونا سب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہوتا ہے۔

در رضایش مرضئ حق گم شوَد
"ایں سخن کے باورِ مردم شوَد"

پھر اللہ تعالیٰ کی رضا اس کی رضا میں گم ہو جاتی ہے
لیکن عام لوگ اس بات کو کیسے باور کریں گے

خیمہ در میدانِ الا اللہ زدست
در جہاں شاہد علی الناس آمدست

وہ الا اللہ (توحید) کے میدان میں خیمہ زن ہے
اور وہ دنیا میں لوگوں پر شاہد (حق) ہے۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَٰكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا۟ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

ترجمہ:- ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواه ہوجائیں

شاہدِ حالش نبئ انس و جاں
شاہدے صادق ترینِ شاہداں

اور اس کے حال کے شاہد جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
جو سب شاہدوں سے صادق ترین ہیں

قال را بگذار و بابِ حال زن
نورِ حق بر ظلمتِ اعمال زن

بحث و مباحثہ کو چھوڑ اور حال (روحانی کیفیت ) کا دروازہ کھٹکھٹا
اور اس طرح اعمال کی تاریکی پر اللہ تعالیٰ کا نور بکھیر دے

اسرارِ خودی

19/07/2022

سوز و گدازِ زندگی لذتِ جستجوے تو
راہ چو مار می گزد گر نہ روم بسوے تو

آپ کی جستجو میں جو لذت ملتی ہے وہی سوز و گداز زندگی ہے
اگر میں آپ کی طرف سفر نہ کروں تو راستہ مجھے سانپ کی طرح ڈستا ہے

سینہ گشادہ جبرئیل از برِ عاشقاں گذشت
تا شررے بہ او فتد ز آتش آرزوے تو

جبریل امین علیہ السلام اپنا سینہ کھولے ہوئے عاشقوں کے پاس سے گذرتے ہیں
تاکہ انہیں بھی آپ کی محبت کی چنگاری میّسر آ جائے۔

ہم بہ ہواے جلوہ ئی پارہ کنم حجاب را
ہم بہ نگاہِ نارسا پردہ کشم بہ روے تو

کبھی تو میں آپ کے جلوہ کے شوق میں سارے حجاب پارہ پارہ کر دیتا ہوں
اور کبھی خود ہی اپنی نگاہ نا رسا سے آپ کے چہرے پر پردہ کھینچ لیتا ہوں۔

من بتلاش تو روَم یا بہ تلاش خود روَم
عقل و دل نظر ہمہ گم شدگانِ کوے تو

میں آپ کی تلاش میں نکلوں یا اپنی تلاش میں
عقل ، دل اور نظر سب آپ کی گلی میں گم ہو چکے ہیں۔

از چمن تو رستہ ام قطرۂ شبنمے ببخش
خاطرِ غنچہ وا شوَد کم نہ شود ز جوے تو

میں آپ ہی کے چمن کا پودا ہوں، مجھے قطرۂ شبنم عطا فرمائیے
اس سے میرے غنچے کا دل کھل جائے گا اور آپ کی ندی میں کچھ کمی واقع نہیں ہو گی۔

زبورِ عجم

16/07/2022

گرچہ دارد لاالہ اندر نہاد
از بطونِ او مسلمانے نزاد

اگرچہ یہ ملّت اپنی سرشت میں لا الہ الاللہ رکھتی ہے
مگر اس کی ماؤں کے پیٹ سے کوئی ایسا مسلمان پیدا نہیں ہوا۔

آں کہ بخشد بی یقیناں را یقیں
آں کہ لرزد از سجودِ او زمیں

جو بے یقینوں کو یقین بخشے،
جس کے سجدے سے زمین لرز اٹھے۔

آں کہ زیرِ تیغ گویَد لاالہ
آں کہ از خونش برویَد لاالہ

جو تلوار کے نیچے بھی لا الہ الاللہ کہے جس کے خون کے (ہر قطرے ّ) سے لا الہ الااللہ کا نقش ابھرے۔

آں سرور، آں سوزِ مشتاقی نماند
در حرم صاحب دلے باقی نماند

نہ وہ سرور باقی رہا اور نہ وہ شوق (محبت) کا سوز ۔
حرم کے اندر کوئی صاحب دل باقی نہیں رہا

اے مسلماں اندریں دیرِ کہن
تا کجا باشی بہ بندِ اہرمن

اے مسلمان تو اس پرانے بتخانے (دنیا) میں کب تک شیطان کا قیدی رہے گا

جہد با توفیق و لذت در طلب
کس نیابد بے نیازِ نیم شب

تجھے ایسی کوشش کی ضرورت ہے جو تا حدِ ہمت کی جاے اور جس کے اندر لذّت محسوس ہو
مگر یہ چیز گریہ نیم شب (راتوں کو رونے) کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔

پس چہ باید کرد

19/06/2022

ایں دو حرفِ لاالہ گفتار نیست
لاالہ جز تیغِ بے زنہار نیست

لاالہ کے دو حروف محض گفتار نہیں
بلکہ تیغ بے زنہار ہیں۔

زیستن با سوزِ او قہاری است
لاالہ ضرب است و ضربِ کاری است

لاالہ کے ساتھ جینا قاہری ہے
لاالہ محض ضرب نہیں، بلکہ ضرب کاری ہے۔

مومن و پیشِ کساں بستن نطاق
مومن و غداری و فقر و نفاق

مومن اور دوسروں کی غلامی کرے؟
مومن ہو اور غداری ، نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے؟

با پشیزے دین و ملت را فروخت
ہم متاعِ خانہ و ہم خانہ سوخت

اس دور کے مسلمان نے معمولی قیمت پر دین اور ملت کو بیچ دیا
اس نے اپنا گھر بھی جلا دیا اور گھر کا سامان بھی۔

لاالہ اندر نمازش بود و نیست
نازہا اندر نیازش بود و نیست

کبھی اس کی نماز میں لاالہ (کا رنگ ) تھا، مگر اب نہیں
کبھی اس کی نیاز مندی میں ناز تھا ، مگر اب نہیں۔

نور در صوم و صلوۃِ او نماند
جلوۂ در کائناتِ او نماند

نہ اب اس کے روزہ اور نماز میں نور ہے
نہ اس کی کائنات میں حق تعالیٰ کا جلوہ ہے

آنکہ بود ﷲ او را ساز و برگ
فتنۂ او حبِ مال و ترسِ مرگ

وہ (مسلمان) جو اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتا تھا
آج کل مال کی محبت اور موت کے خوف کے فتنہ میں مبتلا ہے۔

رفت ازو آں مستی و ذوق و سرور
دینِ او اندر کتاب و او بگور

وہ مستی اور ذوق و سرور کھو چکا ہے
اسکا دین اب کتاب ہی میں رہ گیا ہے، اور وہ خود قبر میں ہے (یعنی وہ مرچکا ہے)

جاویدنامہ

07/06/2022

نکتۂ می گویمت روشن چو دُر
تا شناسی امتیازِ عبد و حر

میں تمہیں موتی سے چمکدار نکتہ بتاتا ہوں
تاکہ تو غلام اور آزاد کے درمیان فرق جان سکے

عبد گردَد یاوہ در لیل و نہار
در دلِ حُر یاوہ گردَد روزگار

غلام رات اور دن کے چکر میں پڑا رہتا ہے
اور مرد ازاد کے دل میں زمانہ گم ہوتا ہے
(مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق)۔

عبد از ایام می بافد کفن
روز و شب را می تند بر خویشتن

غلام ایام (وقت) سے کفن بُنتا ہے
دن اور رات کی صورت میں اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے۔

مردِ حُر خود را ز گِل بر می کند
خویش را بر روزگاراں می تند

لیکن مرد آزاد اپنے آپ کو مٹی سے باہر نکالتا ہے اور زمانے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

عبد چوں طایر بدامِ صبح و شام
لذتِ پرواز بر جانش حرام

غلام پرندے کی مانند صبح و شام کے دام میں گرفتار رہتا ہے
اس کی جان پر لذت پرواز حرام ہے۔

سینۂ آزادۂ چابک نفس
طایرِ ایام را گردَد قفس

(اس کے برعکس) مرد آزاد کا پر عزم سینہ وقت کے پرندہ (ایام) کے لیے قید ہے۔

عبد را تحصیل حاصل فطرت است
وارداتِ جانِ او بے ندرت است

غلام کی فطرت یہ ہے کہ وہ حاصل کردہ چیز کو ہی حاصل کرتا ہے
اس کے اندرونی مشاہدات (ندرت) سے خالی ہے۔

از گراں خیزی مقامِ او ہماں
نالہ ہاے صبح و شامِ او ہماں

وہ اپنی تساہل پسندی کے سبب اسی مقام پر رہتا ہے جہاں تھا
اس کے صبح و شام کا نالہ و فریاد بھی ایک ہی لے رکھتا ہے۔

دمبدم نو آفرینی کارِ حُر
نغمہ پیہم تازہ ریزد تارِ حُر

مردِ آزاد کا کام ہر لحظہ ایک نئی چیز پیدا کرنا ہے
اس کے ساز کے تار سے ہمیشہ تازہ نغمے پھوٹتے ہیں۔

فطرتش زحمت کشِ تکرار نیست
جادۂ او حلقۂ پرکار نیست

اس کی فطرت تکرار کی خوگر نہیں
اس کا راستہ پرکار کا دائرہ نہیں۔

عبد را ایام زنجیر است و بس
بر لبِ او حرفِ تقدیر است و بس

غلام کے لیے ایام (وقت) محض زنجیر (پا) ہیں اس کے لب پر ہمیشہ تقدیر کا گلہ رہتا ہے۔

ہمتِ حُر با قضا گردَد مشیر
حادثات از دستِ او صورت پذیر

مرد آزاد کی ہمت تقدیر کی مشیر بن جاتی ہے زمانے کے واقعات اس کے ہاتھ سے صورت اختیار کرتے ہیں۔

اسرارِ خودی

23/05/2022

سنگ اسود از دَرِ بتخانہ خواہ
نافۂ مشک از سگِ دیوانہ خواہ

بتخانے کے دروازے پہ حجر اسود تلاش کر باؤلے بت کے ( منہ کی جھاگ) میں مشک کا نافہ ڈھونڈ لے

سوزِ عشق از دانشِ حاضر مجوے
کیف حق از جامِ ایں کافر مجوے

مگر دانش حاضر سے سوز عشق کی توقع نہ رکھ
اس کافر کے جام میں شراب حقانی کی کیفیت تلاش نہ کر۔

مدتے محوِ تگ و دو بودہ ام
رازدانِ دانش نَو بودہ ام

میں (اقبال) ایک مدت تک سعی و کوشش میں لگا رہا، دور جدید کے علوم کا رازداں ہوا۔

باغباناں امتحانم کردہ اند
محرمِ ایں گلستانم کردہ اند

باغبانوں (مغربی پروفیسروں) نے میرا امتحان لے کر مجھے اس گلستان کا محرم بنایا۔

گلستانے لالہ زارِ عبرتے
چوں گُلِ کاغذ سرابِ نکہتے

مگر میں نے اس گلستان (مغربی علوم) کو عبرت کا لالہ زار پایا
یہ کاغذی پھول کی خوشبو کا دھوکہ ہے، یعنی خوشبو سے خالی ہے۔

تا ز بندِ ایں گلستاں رستہ ام
آشیاں بر شاخِ طوبیٰ بستہ ام

بنا بریں میں نے اس گلستان کے بندھن سے اپنے آپ کو چھڑایا ہے
اور شاخ طوبیٰ پر اپنا آشیانہ بنایا ہے۔

دانشِ حاضر حجابِ اکبر است
بت پرست و بت فروش و بتگر است

جدید علوم حجاب اکبر ہیں، یہ غلط نظریات کے بت بنا کر انہیں پوجتے ہیں اور فروخت کرتے ہیں۔

اسرارِ خودی

20/05/2022

مثلِ شرر ذرہ را تن بہ تپیدن دہم
تن بہ تپیدن دہم بال پریدن دہم

میں شرر کی مانند بدن کے ذرہ میں آگ لگا کر اسے اڑنے کے لیے پر مہیا کرتا ہوں

سوزِ نوایم نگر ریزۂ الماس را
قطرۂ شبنم کنم خوے چکیدن دہم

میری آواز (شاعری) کا سوز دیکھ ، میں ہیرے کے ٹکڑوں کو شبنم کا قطرہ بنا کر ٹپکا دیتا ہوں۔

چوں ز مقامِ نمود نغمۂ شیرین زنم
نیم شبانِ صبح را میلِ دمیدن دہم

جب میں اپنے مقام سے شیریں نغمے آلاپتا ہوں تو نصف شب ہی کو صبح کے انداز عطا کر دیتا ہوں۔

یوسفِ گم گشتہ را باز گشودم نقاب
تا بہ تنک مایگاں ذوقِ خریدن دہم

میں یوسف گم گشتہ کو پھر سامنے لے آیا ہوں تاکہ کم متاع لوگوں کے اندر اس کی خریداری کا شوق پیدا ہو۔

عشق شکیب آزما خاکِ ز خود رفتہ را
چشمِ ترے داد و من لذتِ دیدن دہم

خود فراموش مسلمانوں کی خاک کو عشق صبر آزما نے چشم تر (رونے والی آنکھ) دی اور میں نے انہیں لذّت دید (دیکھنے والی نگاہ) دی ہے
(مجھ سے پہلے مسلمان اپنے حالات پر فقط آنسو بہاتے تھے ، میں نے انہیں نئے روشن مستقبل کی راہ دیکھائی ہے)۔

زبورِ عجم

19/05/2022

دو دستہ تیغم و گردوں برہنہ ساخت مرا
فساں کشیدہ بہ روے زمانہ آخت مرا

میں دو دھاری تلوار ہوں اور آسمان نے مجھے برہنہ کر دیا ہے
پھر مجھے سان پر تیز کیا اور زمانے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے

من آں جہانِ خیالم کہ فطرتِ ازلی
جہانِ بلبل و گُل را شکست و ساخت مرا

میں نئے فکر کا وہ تازہ جہان ہوں جسے فطرت نے، گل اور بلبل (مادیت) کی دنیا منہدم کر کے وجود میں لائی ہے

مئے جواں کہ بہ پیمانۂ تو می ریزم
ز راوقی است کہ جام و سبو گداخت مرا

یہ جوان شراب (نئے افکار) جو میں تمہارے پیمانے میں ڈال رہا ہوں
ایسی تیز شراب ہے جس نے میرے جام اور صراحی کو پگھلا دیے ہیں۔

نفس بہ سینہ گدازم کہ طایرِ حرمم
تواں ز گرمئ آوازِ من شناخت مرا

میں حرم کا پرندہ ہوں اپنا جذب سینے میں محفوظ رکھتا ہوں
مجھے آواز کی گرمی (شاعری) سے پہچانا جا سکتا ہے۔

شکست کشتئ ادراک مرشدانِ کہن
خوشا کسے کہ بہ دریا سفینہ ساخت مرا

پرانے مرشدوں کی ادراک کی کشتی ٹوٹ چکی ہے
مبارک ہے وہ شخص جو دریائے عصر رواں میں مجھے کشتی بناتا ہے۔

زبورِ عجم

08/05/2022

اے ز خود پوشیدہ خود را بازیاب
در مسلمانی حرام است ایں حجاب

تو اپنے آپ سے پوشیدہ ہے، اپنے آپ کو دوبارہ پا لے
مسلمانی میں ایسا پردہ حرام ہے۔

رمزِ دینِ مصطفیٰ دانی کہ چیست
فاش دیدن خویش را شاہنشی است

کیا تو جانتا ہے کہ دینِ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا راز کیا ہے؟
یہ کہ اپنے آپ کو برملا دیکھنا بادشاہی ہے

چیست دین ؟ دریافتن اسرارِ خویش
زندگی مرگ است بے دیدارِ خویش

دین کیا ہے؟ اپنی شخصیت کے اسرار دریافت کرنا
اپنے دیدار کے بغیر زندگی موت ہے۔

آں مسلمانے کہ بیند خویش را
از جہانے برگزیند خویش را

وہ مسلمان جو اپنے آپ کو دیکھ لیتا ہے
وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ سارے جہان سے برتر ہے۔

از ضمیرِ کائنات آگاہ اوست
تیغِ لا موجود "الا ﷲ" اوست

ایسا مسلمان ہی ضمیر کائنات سے آگاہ ہوتا ہے وہی لاموجود "الااللہ" کی تلوار بنتا ہے

در مکان و لامکاں غوغاے او
نہ سپہر آوارہ در پہناے او

مکان اور لا مکان میں اسی کا غوغا ہے
سارے آسمان (پوری کائنات) اسی کی وسعت میں پھرتے ہیں۔

تا دلش سرّے ز اسرارِ خداست
حیف اگر از خویشتن ناآشناست

چونکہ مسلمان کا قلب اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے
اس لیے ایسے مسلمان پر افسوس ہے جو اپنے سے بے خبر ہے۔

بندۂ حق وارثِ پیغمبراں
او نگنجد در جہانِ دیگراں

اللہ تعالیٰ کا بندہ پیغمبروں کا وارث ہے
وہ دوسروں کے جہان میں نہیں سماتا
(وہ اپنا جہان خود پیدا کرتا ہے)

تا جہانے دیگرے پیدا کند
ایں جہانِ کہنہ را برہم زند

چونکہ وہ نیا جہان پیدا کرتا ہے اس لیے پہلے اس پرانے جہان کو درہم برہم کر دیتا ہے۔

زندہ مرد از غیرِ حق دارد فراغ
از خودی اندر وجودِ او چراغ

زندہ انسان غیر اللہ سے فراغت حاصل کر چکا ہے
اس کے وجود کے اندر خودی کا چراغ روشن ہوتا ہے۔

پاے او محکم بہ رزمِ خیر و شر
ذکرِ او شمشیر و فکرِ او سپر

خیر و شر کی جنگ میں وہ ثابت قدم رہتا ہے
ذکر اس کی تلوار ہے اور فکر اس کا ڈھال ہے

پس چہ باید کرد

04/05/2022

پیغام سلطان شہید رح

سینۂ داری اگر در خورد تیر
در جہاں شاہیں بزی شاہیں بمیر

اگر تو ایسا سینہ رکھتا ہے جو تیر کا زخم برداشت کر سکے
تو دنیا میں شاہین کی طرح زندہ رہ اور شاہین ہی کی موت مر۔

زانکہ در عرضِ حیات آمد ثبات
از خدا کم خواستم طولِ حیات

میں نے اللہ تعالیٰ سے لمبی زندگی نہیں مانگی کیونکہ زندگی پیش کر دینے ہی میں اس کی بقا ہے۔

زندگی را چیست رسم و دین و کیش
یک دمِ شیری بہ از صد سال میش

زندگی کی رسم و راہ اور دین و آئین کیا ہے؟ شیر کا ایک لمحہ بھیڑ کے سو سال سے بہتر ہے۔

زندگی محکم ز تسلیم و رضاست
موت نیرنج و طلسم و سیمیاست

زندگی تسلیم اور رضا (اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا) سے استحکام پاتی ہے
موت صرف طلسم ، وہم ، اور نیرنگ ہے۔

بندۂ حق ضیغم و آہوست مرگ
یک مقام از صد مقامِ اوست مرگ

اللہ تعالیٰ کا بندہ شیر ہے اور موت ہرن
موت اس کے سینکڑوں مقامات میں سے ایک مقام ہے۔

می فتد بر مرگ آں مردِ تمام
مثل شاہینے کہ افتد بر حمام

مرد کامل موت پر اس طرح جھپٹتا ہے جیسے شاہین کبوتر پر۔

ہر زماں میرد غلام از بیمِ مرگ
زندگی او را حرام از بیمِ مرگ

(نفس کا) غلام ہر لمحہ موت کے خوف سے مرتا ہے
موت کے ڈر سے اس کی زندگی حرام ہو جاتی ہے۔

بندۂ آزاد را شأنے دگر
مرگ او را میدہد جانے دگر

مگر اللہ تعالیٰ کے آزاد بندے کی اور شان ہے موت اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے۔

او خود اندیش است مرگ اندیش نیست
مرگ آزاداں ز آنے بیش نیست

اللہ تعالیٰ کے بندے کو اپنی فکر رہتی ہے ( میں احکام الہی کا پابند ہوں یا نہیں) اسے موت کی فکر نہیں
آزاد لوگوں کی موت ایک لمحے سے زیادہ نہیں۔

بگذر از مرگے کہ سازد با لحد
زانکہ ایں مرگ است مرگِ دام و دَد

چھوڑ اس موت کو جو قبر سے موافقت اختیار کر لیتی ہے
کیونکہ یہ موت چوپایوں کی موت ہے۔

مردِ مومن خواہد از یزدان پاک
آں دگر مرگے کہ بر گیرد ز خاک

مرد مومن اللہ تعالیٰ سے اس موت کا طالب رہتا ہے جو اسے خاک سے اوپر اٹھا دیتی ہے

جاویدنامہ

26/04/2022

مردِ حق افسونِ ایں دیرِ کہن
از دو حرفِ "ربی الاعلی" شکن

اے بندہ حق ! ربی الاعلی کے دو الفاظ سے اس پرانے بتخانہ (دنیا) کا جادو توڑ دے۔

فقر خواہی از تہی دستی منال
عافیت در حال و نے در جاہ و مال

فقر چاہتا ہے کہ تو افلاس کی فریاد نہ کر عافیت قلب کی کیفیت پر منحصر ہے، اس کا تعلق عہدہ اور مال سے نہیں۔

صدق و اخلاص و نیاز و سوز و درد
نے زر و سیم و قماشِ سرخ و زرد

صدق، اخلاص ، نیازمندی اور سوز و درد (عافیت لاتے ہیں)
نہ کہ سونا چاندی اور سرخ و زرد (ریشمی) کپڑے۔

بگذر از کاوس و کَے اے زندہ مرد
طوفِ خود کن گرد ایوانے مگرد

اے زندہ مرد! کیکاؤس اور کیقباد جیسے بادشاہوں کے محلات کا طواف کرنے کی بجائے اپنا طواف کر۔

از مقامِ خویش دور افتادہ ئی
کرگسی کم کن کہ شاہیں زادہ ئی

تو اپنے مقام سے دور جا پڑا ہے
تو شاہینوں کی اولاد ہے کرگسوں جیسے کام نہ کر۔

مرغک اندر شاخسارِ بوستاں
بر مرادِ خویش بندد آشیاں

پرندہ بھی باغ کے درخت کی ٹہنیوں پر اپنی مرضی کے مطابق اپنا آشیانہ بناتا ہے۔

تو کہ داری فکرتِ گردوں مسیر
خویش را از مرغکے کمتر مگیر

تیری سوچ کی پرواز آسمانوں تک ہے
تو اپنے آپ کو پرندے سے کم تر نہ سمجھ ۔

دیگر ایں نُہ آسماں تعمیر کن
بر مرادِ خود جہاں تعمیر کن

ان نو آسمانوں (کائنات) کو دوبارہ تعمیر کر
اس دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بنا۔

چوں فنا اندر رضاے حق شوَد
بندۂ مومن قضاے حق شوَد

جب بندۂ مومن اپنے آپ کو رضائے الہی میں گم کر دیتا ہے
تو وہ قضائے الہی بن جاتا ہے۔

چار سوے با فضاے نیلگوں
از ضمیرِ پاک او آید بروں

پھر یہ جہانِ چار جہت اور یہ فضائے نیلگوں اس کے ضمیر پاک کے اندر سے نئی صورت میں باہر آتا ہے۔

در رضاے حق فنا شو چوں سلف
گوہرِ خود را بروں آر از صدف

اپنے آباء کی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا میں گم ہو کر صدف سے اپنے موتی کو باہر نکال۔

در ظلامِ ایں جہانِ سنگ و خشت
چشمِ خود روشن کن از نورِ سرشت

اس پتھر اور اینٹ کی تاریک دنیا میں
اپنی آنکھ کو اپنی پاک طینت نور سے روشن کر۔

تا نہ گیری از جلالِ حق نصیب
ہم نیابی از جمالِ حق نصیب

جب تک تو اللہ تعالیٰ کے جلال سے حصّہ نہ پائے گا
اس کے جمال سے بھی بہرہ اندوز نہ ہو سکے گا۔

ابتداے عشق و مستی قاہریست
انتہاے عشق و مستی دلبریست

عشق و مستی کی ابتدا قاہری (سختی) ہے
اور عشق و مستی کی انتہا دلبری (محبوبی) ہے۔

مردِ مومن از کمالاتِ وجود
او وجود و غیرِ او ہر شے نمود

مرد مومن کمالات وجود (کے شاہکاروں میں) سے ہے
وہ وجود (حقیقی ) ہے، باقی ہر شے صرف (وجود) نظر آتی ہے۔

گر بگیرد سوز و تاب از لاالہ
جز بکامِ او نگردد مہر و مہ

اگر مومن لاالہ الااللہ سے حرارت اور چمک پا لے تو سورج اور چاند (یہ کائنات) اسی کے مقصد کی تکمیل کے لیے گردش کرتے ہیں۔

پس چہ باید کرد

26/04/2022

"اس مضمون کی وضاحت کہ نا امیدی غم اور ڈر سب برائیوں کی جڑ ہیں اور رشتۂ حیات منقطع کرنے والی ہیں ، اور توحید ان امراض خبیثہ کا ازالہ کرتی ہے"

فطرتِ او تنگ تاب و سازگار
با دلِ لرزاں و دستِ رعشہ دار

اس کی فطرت کمزور اور لرزنے والے دل اور کانپنے والے ہاتھ کے مطابق ہو جاتی ہے۔

دزدد از پا طاقتِ رفتار را
می رباید از دماغ افکار را

خوف اس کے پاؤں سے چلنے کی طاقت چرا لیتا ہے
اور اس کے دماغ سے اعلی افکار چھین لیتا ہے۔

دشمنت ترساں اگر بیند ترا
از خیابانت چو گِل چیند ترا

جب دشمن تجھے خوف زدہ دیکھتا ہے تو تجھے ایسے توڑ لیتا ہے جیسے کیاری سے پھول توڑا جاتا ہے۔

ضرب تیغِ او قوی تر می فتد
ہم نگاہش مثلِ خنجر می فتد

اس کی تلوار کی ضرب تجھ پر اور زور سے پڑتی ہے
بلکہ اس کی نگاہ بھی خنجر کا اثر پیدا کرتی ہے۔

بیم چوں بند است اندر پاے ما
ورنہ صد سیل است در دریاے ما

خوف ہمارے پاؤں میں زنجیر کی مانند ہے
ورنہ ہمارے دریائے (ہمت) میں سینکڑوں سیلاب موجود ہیں۔

بر نمی آید اگر آہنگِ تو
نرم از بیم است تارِ چنگ تو

اگر تیرے ساز سے نغمہ نہیں اٹھتی
تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی تار خوف کے باعث نرم ہو چکی ہے۔

گوش تابش دہ کہ گردَد نغمہ خیز
بر فلک از نالہ آرد رستخیز

اس کے تار کس لے تاکہ ان سے نغمہ پیدا ہو
اور اس کا نالہ آسمان پر پہنچ کر محشر بپا کر دے۔

بیم، جاسوس است از اقلیم ِمرگ
اندرونش تیرہ مثلِ میم مرگ

خوف حکومت موت کا جاسوس ہے؛
اور اس کے اندرون میم موت کی مانند تاریک ہے۔

چشمِ او برہمزنِ کارِ حیات
گوشِ او بزگیر اخبارِ حیات

اس جاسوس کی آنکھ زندگی کے معاملات کو درہم برہم کر دیتی ہے
اور اس کے کان زندگی کی بڑی بڑی خبریں چرا لے جاتے ہیں

ہر شرِ پنہاں کہ اندر قلبِ تست
اصلِ او بیم است اگر بینی درست

تیرے دل کے اندر جو بھی برائی پنہاں ہے
اگر تو غور سے دیکھے تو اس کی بنیاد خوف ہے۔

لابہ و مکاری و کین و دروغ
ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ

خوشامد، مکّاری ، کینہ، جھوٹ یہ سب برائیاں خوف ہی سے فروغ پاتی ہیں۔

پردۂ زور و ریا پیراہنش
فتنہ را آغوشِ مادر دامنش

خوف کا لباس جھوٹ اور ریا کاری کا پردہ ہے
اور اس کا دامن فتنے کے لیے ماں کی گود ہے۔

زانکہ از ھمت نباشد استوار
می شوَد خوشنود با ناسازگار

جو کوئی ہمت سے محکم نہیں
وہ ناسازگار چیزوں سے بھی خوشی خوشی موافقت پیدا کر لیتا ہے۔

ہر کہ رمزِ مصطفیٰ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است

جس کسی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی حقیقت سمجھ لی ہے
تو اس نے شرک کو خوف کے اندر پوشیدہ دیکھ لیا ہے۔

رموزِ بیخودی

24/04/2022

اے کہ در زندانِ غم باشی اسیر
از نبی تعلیمِ لاتحزن بگیر

اے وہ شخص جو غم کے قید خانے میں اسیر ہے
جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد (لاتحزن 40:9 - غم نہ کھا) سے سبق حاصل کر۔

ایں سبق صدیق را صدیق کرد
سر خوش از پیمانۂ تحقیق کرد

اس سبق نے ابو بکر کو صدیق بنا دیا
اور وہ حق الیقین کی مے سے سرمست ہو گئے۔

از رضا مسلم مثالِ کوکب است
در رۂ ہستی تبسم بر لب است

راضی بر رضا رہنے سے مسلمان ستارے کی مانند راہ حیات میں ہمیشہ متبسّم رہتا ہے۔

گر خدا داری ز غم آزاد شو
از خیالِ بیش و کم آزاد شو

اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو ہر طرح کے غم اور نفع و نقصان کے خیال سے آزاد ہو جا

قوتِ ایماں حیات افزایدت
ورد "لا خوف علیہم" بایدت

ایمان کی قوّت تیری زندگی بڑھاتی ہے
(اس لیے) "لا خوف علیہم" کا ورد رکھنا چاہیے۔

چوں کلیمے سوے فرعونے روَد
قلبِ او از لاتخف محکم شود

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف گئے
ان کا قلب "لاتخف" سے مضبوط ہوا۔

بیمِ غیر اللہ عمل را دشمن است
کاروانِ زندگی را رہزن است

غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن اور قافلۂ زندگی کا رہزن ہے۔

عزمِ محکم ممکنات اندیش ازو
ہمتِ عالی تامل کیش ازو

اس سے عزم محکم شک کا شکار ہو جاتا ہے
اور ہمت عالی تذبذب میں پڑ جاتی ہے۔

تخمِ او چوں در گِلت خود را نشاند
زندگی از خود نمائی باز ماند

جب غیر اللہ کے خوف کا بیج تیری مٹی (بدن) میں بیٹھ جاتا ہے
تو زندگی اپنی قوّتوں کے اظہار سے باز رہتی ہے۔

رموزِ بیخودی

15/04/2022

اہلِ دنیا بے تخیل بے قیاس
بوریا بافان اطلس ناشناس

دنیا کے لوگ نہ تخیّل رکھتے ہیں، نہ سوچ
وہ بوریئے بُننے میں لگے رہتے ہیں، انہیں اطلس کی خبر ہی نہیں۔

اعجمی مردے چہ خوش شعرے سرود
سوزد از تاثیرِ او جاں در وجود

عجمی مرد نے کیا خوب شعر کہا ہے
جس کی تاثیر سے جان میں سوز پیدا ہو گیا ہے

"نالۂ عاشق بہ گوشِ مردمِ دنیا
بانگ مسلمانی و دیار فرنگ است"

دنیا دار کے کانوں میں عاشق کا نالہ و فریاد یوں ہے
جیسے فرنگیوں کے ملک میں اذان کی آواز

معنئ دین و سیاست باز گوے
اہل حق را زیں دو حکمت باز گوے

دین اور سیاست کے معنی پھر بیان کر
اہل حق کو دوبارہ ان دونوں حکمتوں کے بارے میں بتادے

"غم خور و نانِ غم افزایاں مخور
زانکہ عاقل غم خورد کودک شکر"
(رومی)

غم کھا لے، مگر غم بڑھانے والوں کی روٹی نہ کھا
کیونکہ عقلمند غم کھاتا ہے اور بچہ شکر کھاتا ہے۔

خرقہ خود بار است بر دوشِ فقیر
چوں صبا جز بوے گُل ساماں مگیر

فقیر کے کندھے پر تو گدڑی بھی بوجھ ہے
باد صبا کی مانند سوائے پھول کی خوشبو کے اور سامان نہ اٹھا۔

پس چہ باید کرد

14/04/2022

خیر را او باز میداند ز شر
از نگاہش عالمے زیر و زبر

مومن خیر کو شر سے الگ پہچان لیتا ہے
اس کی نگاہ سے دنیا زیر و زبر ہو جاتی ہے۔

کوہسار از ضربتِ او ریز ریز
در گریبانش ہزاراں رستخیز

پہاڑ اس کی ضرب سے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اس کے گریبان میں ہزاروں ہنگامے ہوتے ہیں۔

تا مئے از میخانۂ من خوردہ ئی
کہنگی را از تماشا بردہ ئی

جب تو نے میرے (رومی کے) میخانہ سے شراب پی ہے
پرانی اقدار کو سامنے سے ہٹا دیا ہے۔

در چمن زی مثلِ بو مستور و فاش
در میانِ رنگ پاک از رنگ باش

تو چمن میں خوشبو کی طرح مستور اور ظاہر رہ
دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس کے رنگ سے پاک ہوجا

عصرِ تو از رمزِ جاں آگاہ نیست
دینِ او جز حُبِ غیر ﷲ نیست

تیرا زمانہ روحانی رموز سے آگاہ نہیں
اس کا مذہب صرف غیر اللہ سے محبت ہے۔

فلسفی ایں رمز کم فہمیدہ است
فکر او بر آب و گِل پیچیدہ است

فلسفی نے بھی اس راز کو نہیں پہچانا
اس کی ساری سوچ مادی اشیاء کے گرد گھومتی رہی

دیدہ از قندیلِ دل روشن نہ کرد
پس ندید الا کبود و سرخ و زرد

اس نے اپنی آنکھ کو دل کے چراغ سے روشن نہیں کیا
اس لیے اس نے صرف نیلے، سرخ اور زرد (ظاہری) رنگ دیکھے
(وہ اللہ تعالے کا رنگ نہ دیکھ سکا)

اے خوش آں مردے کہ دل با کس نداد
بندِ غیر ﷲ را از پا گشاد

مبارک ہے وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کےسوا کسی کو دل نہ دیا
جس کے پاؤں غیر اللہ کے بند سے آزاد رہے۔

سرِ شیری را نہ فہمد گاو و میش
جز بہ شیراں کم بگو اسرارِ خویش

گائے اور بھیڑ شیر کے راز نہیں سمجھ سکتیں اس لیے اپنے راز صرف شیروں کو بتا۔

پس چہ باید کرد

Address

North Nazimabad
Karachi
74700

Telephone

+923102581386

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Iqbalistan Movement posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Iqbalistan Movement:

Videos

Share


Other Performance & Event Venues in Karachi

Show All