21/03/2024
ابن خزیمہ نے اپنی صحیح ابن خزیمہ : (1887) میں روایت کیا ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری دن خطاب فرمایا: (لوگو! تمہارے پاس عظیم ماہ سایہ فگن ہے، یہ مبارک مہینہ ہے۔۔۔) الحدیث ، اس میں یہ بھی ہے کہ: (اس ماہ کا اوّل حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت، اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے)"
پہلے سوال نمبر: (21364) کے جواب میں اس حدیث کے بارے میں تفصیلی گزر چکا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
ماہِ رمضان مکمل طور پر اللہ کی رحمت ہے، اسی طرح مکمل مہینہ ہی بخشش اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے، چنانچہ اس ماہ کے کچھ حصے کو کسی خاص چیز کیساتھ مختص کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی کی خصوصی رحمت کا تقاضا ہی یہی ہے۔
جیسے کہ مسلم: (1079) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب ماہِ رمضان شروع ہو تو رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے)
اسی طرح ترمذی: (682) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رمضان کی پہلی رات ہی شیاطین اور سر کش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا، اسی طرح جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور کوئی دروازہ بھی بند نہیں رہتا، اور ایک آواز لگانے والا صدا لگاتا ہے: "اے خیر کے متلاشی! آگے بڑھ، اور اے شر پسند ! باز رہ" اور اللہ تعالی ہر رات لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے)
البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس لیے رمضان کی پہلی تہائی کو رحمت کی دعا کیساتھ مختص کرنا، دوسری تہائی کو مغفرت کی دعا سے اور تیسری تہائی کو جہنم سے آزادی کی دعا کیساتھ مختص کرنا بدعتی طریقہ اور بدعتی دعا ہے، اس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے، اور اسی طرح تین حصوں میں تقسیم کرنا بھی اس کیلئے گنجائش پیدا نہیں کر سکتا؛ کیونکہ رمضان کے سارے دن ہی اس بارے میں یکساں ہیں، چنانچہ ایک مسلمان کو دنیا و آخرت کی تمام دعا پورے رمضان میں مانگنی چاہییں، اور انہی دعاؤں میں رحمت، مغفرت، جہنم سے پناہ، اور جنت میں داخلے کی دعا بھی شامل ہے۔
دوم:
ہر مسلمان کو اس ماہِ مبارک کی برکتوں کو لوٹتے ہوئے خصوصی طور پر خیر و برکت کی دعا کرنی چاہیے، تا کہ رحمت الہی اور اللہ سے معافی کے پروانے حاصل کر سکے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکاریں، انہیں چاہیے کہ میرے احکام مانیں، اور مجھ پر بھروسا رکھیں، تا کہ وہ رہنمائی پائیں۔[البقرة:186]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے روزوں کے احکام کے درمیان میں اس آیت کو ذکر کر کے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، اور رہنمائی فرمائی ہے کہ روزوں کی تعداد پوری ہوتے وقت بلکہ ہر روزے کی افطاری کے وقت دعا کریں" انتہی
"تفسیر ابن كثیر" (1/ 509)
دعا کرتے ہوئے جامع دعا مانگے، ثابت شدہ ادعیہ کا اہتمام کرے، اور اپنی دعاؤں میں حد سے تجاوز مت کرے، اسی طرح دعا کے دیگر آداب بھی ملحوظ خاطر رکھے،