20/09/2022
https://www.facebook.com/430217164492272/posts/1241942486653065/?app=fbl
’’اپنا بیڈ ٹھیک کرو‘
(قاسم علی شاہ)
آپ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام کیا کرتے ہیں؟
عام طورپر اکثر لوگ صبح اٹھ کرسب سے پہلے اپنا موبائل فون چیک کرتے ہیں۔کچھ اٹھتے ساتھ ہی بیڈ ٹی کے نام پر چائے کا کپ پیتے ہیں اور اس کے بعد باقی کام کرتے ہیں۔کچھ لوگ باتھ روم جاکر منہ ہاتھ دھوتے یا شاور لیتے ہیں اورکچھ لوگ صبح جاگ کر بھی بستر پر لیٹے رہتے ہیں ،وہ جاگ تو جاتے ہیں لیکن ان میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور کافی سارا وقت بستر پر لیٹے لیٹے گزار کر پھر اٹھ جاتے ہیں۔لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنا بیڈ ٹھیک کرتے ہیں،تکیہ درست کرتے ہیں ،موبائل ، کتابیں اور دوسری چیزیں اپنی اپنی جگہوں پر رکھتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے کاموں کی طرف بڑھتے ہیں۔
آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ یہ تو ایک عام سی بات ہے لیکن درحقیقت یہ عام سی بات نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ موجود ہے۔
2014 میں یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن (امریکہ) کے گریجویشن کی اختتامی تقریب تھی اور اس تقریب میں ایک شخص نے خطاب کیا لیکن وہ خطاب اس قدر شاندار تھا کہ اب تک سوشل میڈیا پر اس کو 17ملین سے زیادہ لوگ دیکھ اور سن چکے ہیں۔
یہ امیریکن نیوی کا سابقہ سیلر (ر) ایڈمرل ولیم میکریوین تھا ، جس نے بڑی سخت زندگی گزاری تھی ۔ولیم نے اس خطاب میں اپنی پروفیشنل زندگی کے بارے میں کچھ ایسی بہترین ٹپس دیں کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ان کایہ خطاب جس نے بھی سنا ، اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی بدلاو ضرور آیا۔
2017 میںولیم میکریوین نے اپنی پروفیشنل زندگی کے ان ہی تجربات پر
Make Your Bed
کے نام سے ایک شاندار کتاب بھی لکھی ۔اس کتاب نے آتے ساتھ ہی تہلکہ مچادیا اور بہت جلد نیویارک ٹائم بیسٹ سیلر کی فہرست میں شامل ہوگئی۔اس کتاب میں ولیم میکریوین نے کچھ ایسے اصول بتائے ہیں جن کو اپناکر انسان زندگی میں بھرپور ترقی کرسکتا ہے اوراپنی مشکلات کو حل کرسکتا ہے۔
ولیم میکریوین جس وقت نیوی میں زیر تربیت تھا تو وہ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام یہ کرتا کہ اپنی بیڈ کی چادر جھاڑتا، فوم ٹھیک کرکے اس پر چادر بچھاتا اور تکیے سے شکنیں دور کرکے سلیقے کے ساتھ رکھتا ۔ یہ کام وہ اس قدر بہترین انداز میں کرتا کہ چادر کے اوپر ایک معمولی شکن بھی دیکھنے کو نہ ملتی ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کا انسٹرکٹر روز اس کا بیڈ چیک کرتا اور جس روز بھی اس کے بیڈ پر معمولی سی شکن بھی ہوتی تو پھر ولیم کی شامت آجاتی ۔بطورِ سزا اس کو ساحل سمندر پر بھیج دیا جاتا اور اس کو حکم ہوتا کہ پہلے پانی میں خود کو گیلا کرواور اس کے بعد ساحل کی ریت پر لوٹ پوٹ ہوکر اپنا پورا جسم ریت سے بھردو۔یہ ایک تکلیف دہ سزا تھی ، جس سے بچنے کے لیے ولیم روز اپنا بیڈ مکمل طورپر ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کرتا اورپھر رفتہ رفتہ یہ ولیم کی پکی عادت بن گئی اور اسی ایک عادت کی وجہ سے اس کو شاندار ترقیاں ملیں۔
دراصل صبح اٹھ کرجب انسان سب سے پہلے اپنے بیڈ کو درست کرتا ہے تو اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ میں نے دِن کا آغاز ایک کام کو بہترین انداز میں مکمل کرنے سے کیاہے۔اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور اس کے بعد پورے دِن میں جتنے بھی کام آنے ہوتے ہیں ،چاہے وہ مشکل سے مشکل ہی کیوں نہ ہوں توصبح بیڈ ٹھیک کرکے ملنے والے حوصلے کی بدولت انہیں بخوبی انجام دے دیتا ہے۔روزانہ یہ کام کرنے سے انسان کے اندرڈسپلن پیدا ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہر کام پرفیکٹ طریقے سے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ اس کتاب کا پہلا سبق ہے کہ روز اپنا بیڈ ٹھیک کرکے اٹھیں تاکہ آپ کے اندر ڈسپلن اور احساس ذمہ داری پیدا ہو اور
آپ زندگی میں آنے والے ہر کام کو بہترین انداز میں کریں اور یوں آپ ترقی کرتے جائیں گے۔
ٹریننگ کے دوران ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ولیم نے اپنے اس دِن کا ٹاسک پورا کرلیا لیکن اس کے باوجود بھی اس کے انسٹرکٹر نے اس کو بطورِ سزا ساحل پر جاکر ،اپنے جسم پر ریت ملنے کاحکم دیا ۔ولیم اٹھا ، اور چپ چاپ جاکر حکم کی تکمیل اور پھر واپس آکر اپنے انسٹرکٹر کے سامنے پیش ہوا۔انسٹرکٹر نے پوچھا:’’ولیم ! تم نے مجھ سے پوچھا نہیں کہ تمہیں یہ سزا کیوں ملی؟‘‘
دراصل میں تمہیں ایک سبق سکھانا چاہتا تھا ۔اس وقت تمہار ا کوئی قصور نہیں تھا ، تم سزا کے مستحق نہیں تھے لیکن پھر بھی تمہیں سزامل گئی ۔دراصل تمہیں یہ سکھانا مقصود تھا کہ زندگی ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی ، کبھی کبھار ہمیں ایسی سزاؤں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس میں ہمارا کوئی قصورنہیں ہوتا لیکن اس وقت نہ ہی گلہ کرنا ہے اور نہ ہی شکایت ۔بس چپ چاپ سزاکاٹنی ہے اور پھر اس لمحے کو فراموش کرکے آگے بڑھنا ہے۔
یہ اس کتاب کا دوسرا سبق ہے کہ زندگی ہمیشہ اچھی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھار تلخ بھی بن جاتی ہے اور انسان کو ایسا پٹختی ہے کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں لیکن اس وقت کسی سے الجھنا نہیں ، شکوہ نہیں کرنا،اپنی منزل پر نگاہ رکھنی ہے اور چلتے رہنا ہے۔
امیریکن نیوی کی ٹریننگ میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جس میں سیلر کو Hell Week میں ایک ہفتہ گزارنا پڑتا ہے۔اس ایک ہفتے کے دورانیے میں انہیں بدترین حالات سے گزرنا پڑتا ہے ۔انہیں ٹارچر بھی کیا جاتا ہے ۔ان کا کھانا پینا اور سونا بھی بدنظمی کا شکار ہوجاتا ہے۔اسی دوران ایک دِن انہیں ایک مخصوص علاقے میں جانے کا آرڈر ملتا ہے۔اس علاقے میں ہرطرف گیلی مٹی ہوتی ہے ۔جس پرکوئی بھی کھڑا نہیں رہ سکتابلکہ گھٹنوں تک اس گیلی مٹی میں دھنس جاتا ہے ۔سیلرز کو کہا جاتا ہے کہ تم نے پورا دِن یہاں کھیلنا ہے۔سارا دِن کھیل کھیل کر جب وہ تھک ہارجاتے ہیں تو اس وقت سورج غروب ہورہا ہوتا ہے اور موسم کی ٹھنڈک بھی بڑھ رہی ہوتی ہے۔
سارے سیلرز تھکاوٹ ، بھوک ، پیاس اورسردی سے نڈھال پڑے ہوتے ہیں کہ ایسے میں ایک انسٹرکٹر انہیں ذہنی طورپر بریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ ان کے سامنے آکر کہتا ہے:
’’تمہیں ابھی اسی وقت اس مصیبت سے نجات مل سکتی ہے۔تمہیں آگ کے گرد بٹھالیا جائے گا اور کھانے کو گرم گرم سوپ بھی مل جائے گا، بس ایک شرط ہے۔تم میں سے پانچ آدمیوں نے ہمت ہارجانی ہے اور اعلان کرلینا ہے کہ ہم ہار گئے۔‘‘
جب ولیم کے گروپ کے ساتھ ایسا ہوا تو ان میں سے ایک سیلر اٹھا اور اس نے کہا :ٹھیک ہے میں ہارمانتا ہوں ۔اس کاخیال تھا کہ میری دیکھا دیکھی اور لوگ بھی آجائیں گے اور ہمیں اس آزمائش سے نجات مل جائے گی۔اتنے میں ایک جانب سے کسی سیلر نے ایک گانا گانا شروع کیا جس کے بول بہت ہی جذباتی تھے ۔یہ گانا سن کر باقی سب نے بھی اونچی آواز میں وہ گانا شروع کرلیا اور ان کی امید اورحوصلہ ایک بار پھر جوان ہوگیا اور وہ اپنے اس عمل سے یہ ظاہر کررہے تھے کہ جو بھی ہو ہم نے ہار نہیں ماننی۔ مزے کی بات یہ کہ جس سیلر نے ہار مان لی تھی وہ بھی واپس ان کے ساتھ شامل ہوگیا اور سب کے سب گانا گانے لگے ۔ان کے چہرے جذبات سے تھمتھمارہے تھے اور وہ مکمل جوش کے ساتھ اس عمل میں اس حد تک مصروف ہوگئے کہ انسٹرکٹر کے چلانے کے باوجود بھی وہ خاموش نہ ہوئے اور مسلسل گاتے رہے۔اس گانے کی وجہ سے سب کے چہروں پر چھائی تھکاوٹ ، اداسی اور مایوسی ختم ہوگئی اوروہ تازہ دم ہوگئے۔
یہ اس کتاب کا تیسرا سبق ہے کہ مشکل وقت میں جب سب لوگوں کا حوصلہ ماند پڑچکا ہو اور وہ ہمت ہارچکے ہوں تو ایسے میں ایک انسان کی ہمت اور امید باقی سب میں بھی امید کا دیا روشن کرسکتی ہے۔
جس دِن ولیم میکریوین کی نیوی میں ٹریننگ شروع ہوئی، اس کے بیج فیلو کی تعداد 150تھی۔ان کے انسٹرکٹر نے ان کے امیدوں کو توڑتے ہوئے کہا:
’’میں تمہیں بھرپور مشقت میں رکھوں گا، تمہیں ٹارچر کروں گا،تمہیں اس قدر آزمائش میں ڈالوں گا کہ تم ساری زندگی اس مرحلے کو یاد رکھوگے ۔اس لیے اس دوران اگر تم میں سے کوئی اس پر مشقت مرحلے سے بھاگنا چاہے تو وہ سامنے لگی بیل تین بار بجاسکتا ہے۔اس کو آزادی مل جائے گی ، وہ یہاں سے چلا جائے گا اور گھر میں ایک پرسکون زندگی گزارسکے گا،لیکن ۔۔۔۔یہ بات یاد رکھنا کہ اگر تم نے ہار مان لی اور اپنے حوصلے کوتوڑدیاتو یہ ایک پچھتاوا بن جائے گا جو ساری زندگی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔‘‘
ٹریننگ کے اختتام پر 150میں سے صرف33لوگ باقی بچے تھے ۔
یہ اس کتاب کا چوتھا سبق ہے کہ زندگی میں چاہے جیسے بھی حالات پیش آئیں ، کبھی ہار نہیں ماننا، اپنے جذبے کو تازہ رکھنا ہے توپھر تمہیں ایساحوصلہ مل جائے گاجس کی بدولت ان سارے حالات کو برداشت کرسکوگے۔
ولیم میکریوین نے بھی ہار نہیں مانی ،ایک سخت ترین ٹریننگ کے بعد وہ ایک قابل سیلر بناورپھر ایک شاندار کیرئیر اس کا منتظر تھا۔وہ ترقی کرتے کرتے ایڈمرل کے عہدے تک پہنچ گیا۔یہی وجہ تھی کہ آج وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن چکا ہے اور لوگ اس کے تجربات سے استفادہ کرکے اپنی زندگیوں کو سنوار رہے ہیں۔