Muhammad Rashid Awan

  • Home
  • Muhammad Rashid Awan

Muhammad Rashid Awan Nature Never Change
But
Habit Always Change +923138392092

آدھی رات کا وقت تھا۔ قدموں کی چاپ قیدی کو سنائی دی۔ قیدی فورا اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ آنے والی آواز نے زمین پر تین دفعہ لاٹھی ...
06/01/2024

آدھی رات کا وقت تھا۔ قدموں کی چاپ قیدی کو سنائی دی۔ قیدی فورا اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ آنے والی آواز نے زمین پر تین دفعہ لاٹھی سے آواز پیدا کی۔ جوابا قیدی نے ایک دفعہ کھانسنے کی آواز نکالی۔
‏کوڈ ورڈز کا تبادلہ ہوچکا تھا۔ آنے والا شخص اپنے ہمراہ ایک سفید کاغذ لایا تھا۔ ساتھ میں ایک قلم تھا۔ اس شخص نے بغیر کوئی آواز پیدا کیے وہ کاغذ اور قلم جیل کی سلاخوں کے درمیان سے اندر رکھ دیا۔
‏نووارد واپس پلٹا اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے بیرک سے باہر نکل گیا۔ اس شخص کے بعد قیدی اپنی جگہ سے اٹھا۔ کاغذ کا اٹھایا الٹا پلٹا کر دیکھا اور کمرے کی مشرقی دیوار کی جانب بڑھا۔ صرف اسی ایک کونے میں راہداری میں جلنے والے بلب کی روشنی آرہی تھی۔
‏قیدی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ آہستہ آہستہ سوچوں کے تانے بانے کاغذ پر منتقل کرنے لگا۔ لکھتے لکھتے کوئی آواز آتی تو قیدی رک جاتا ۔ کان لگا کر سنتا جب سب معمول کے مطابق ہوتا تو دوبارہ لکھنا شروع کردیتا۔
‏قیدی جو کچھ لکھ رہا تھا وہ بہت ضروری تھا۔ اسے لکھا جانا بھی لازم تھا اور حفاظت سے جیل سے نکالنا اس سے بھی زیادہ ضروری۔ آہستہ آہستہ قیدی نے سب کچھ کاغذ پر منتقل کیا۔ شروع سے لیکر آخر تک دوبارہ پڑھا۔ قیدی کے چہرے پر اطمینان کی کچھ لکیریں نمودار ہوئیں۔ لیکن ابھی ایک مرحلہ باقی تھا۔ قیدی کو ابھی قدموں کی اسی چاپ کا انتظار کرنا تھا۔
‏نیند کوسوں دور تھی۔ قیدی کو خیالات کے جھماکے آ اور جا رہے تھے۔ کوئی خیال آتا تو قیدی کا چہرہ سپاٹ ہوجاتا۔ نظریں سامنے والی دیوار پر جم جاتیں۔ تھوڑی دیر بعد کوئی اور خیال ذہن کے پردے پر ابھرتا تو قیدی زیرلب مسکرانے لگتا۔ بالوں کو ایک ہاتھ سے جھٹک کر پیچھے کرتا اور سر دیوار کیساتھ ٹکا دیتا۔
‏اسی دوران قیدی کو قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہی لاٹھی سے زمین پر تین دفعہ آواز پیدا ہوئی۔ قیدی نے کھانسنے کی آواز پیدا کی کاغذ کو سلاخوں کے قریب رکھا۔ اور اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ آنے والے شخص نے ٹٹول کر سلاخوں کے پیچھے سے کاغذ اٹھایا اور چلا گیا۔
‏اب قیدی پوری طرح سے مطمئن تھا۔ اسکی آواز کو بند کرنے کی کوششیں پوری ریاست کررہی تھی۔ لیکن اس کاغذ کے ذریعے قیدی اپنی آواز پوری دنیا تک پہچانے والا تھا۔ وہ آواز جس کا بوجھ ریاست کا کوئی ٹی وی کوئی اخبار نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ صبح ہوتے ہی وہ آواز دنیا کے سب سے مشہور اخبار اکانومسٹ تک پہنچ جانی تھی اور بے ضمیروں بے شرموں کے سروں پر ہتھوڑے کی طرح برسنے والی تھی۔

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے ...
28/10/2023

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا..

نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا , سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں دوسروں کو مارنے والے مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے .. نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چھوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکها نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی.
وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھےآفس بوائے بھی ٹیلی فون آپریٹر بھی سویپر بھی اور مالک بھی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے .. عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے.. یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کهڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی اج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے ..
یہ نعشیں اٹھانے بھی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا, نعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑهایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کهود کر نعش دفن کر دی .. بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکهے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتهوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا .. لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدهی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا .. ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی .. عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پھرتے تھے یہ وہاں بهی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے ..
ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے.. انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھےعورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھی نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تھے .. عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ھیں مگر ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ھیں..
اللہ پاک ایدھی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماے.. آمین..!

Address

Dera Ghazi Khan

Telephone

+923138392092

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Muhammad Rashid Awan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Muhammad Rashid Awan:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Event Planning Service?

Share