06/01/2024
آدھی رات کا وقت تھا۔ قدموں کی چاپ قیدی کو سنائی دی۔ قیدی فورا اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ آنے والی آواز نے زمین پر تین دفعہ لاٹھی سے آواز پیدا کی۔ جوابا قیدی نے ایک دفعہ کھانسنے کی آواز نکالی۔
کوڈ ورڈز کا تبادلہ ہوچکا تھا۔ آنے والا شخص اپنے ہمراہ ایک سفید کاغذ لایا تھا۔ ساتھ میں ایک قلم تھا۔ اس شخص نے بغیر کوئی آواز پیدا کیے وہ کاغذ اور قلم جیل کی سلاخوں کے درمیان سے اندر رکھ دیا۔
نووارد واپس پلٹا اور دھیرے دھیرے چلتے ہوئے بیرک سے باہر نکل گیا۔ اس شخص کے بعد قیدی اپنی جگہ سے اٹھا۔ کاغذ کا اٹھایا الٹا پلٹا کر دیکھا اور کمرے کی مشرقی دیوار کی جانب بڑھا۔ صرف اسی ایک کونے میں راہداری میں جلنے والے بلب کی روشنی آرہی تھی۔
قیدی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ آہستہ آہستہ سوچوں کے تانے بانے کاغذ پر منتقل کرنے لگا۔ لکھتے لکھتے کوئی آواز آتی تو قیدی رک جاتا ۔ کان لگا کر سنتا جب سب معمول کے مطابق ہوتا تو دوبارہ لکھنا شروع کردیتا۔
قیدی جو کچھ لکھ رہا تھا وہ بہت ضروری تھا۔ اسے لکھا جانا بھی لازم تھا اور حفاظت سے جیل سے نکالنا اس سے بھی زیادہ ضروری۔ آہستہ آہستہ قیدی نے سب کچھ کاغذ پر منتقل کیا۔ شروع سے لیکر آخر تک دوبارہ پڑھا۔ قیدی کے چہرے پر اطمینان کی کچھ لکیریں نمودار ہوئیں۔ لیکن ابھی ایک مرحلہ باقی تھا۔ قیدی کو ابھی قدموں کی اسی چاپ کا انتظار کرنا تھا۔
نیند کوسوں دور تھی۔ قیدی کو خیالات کے جھماکے آ اور جا رہے تھے۔ کوئی خیال آتا تو قیدی کا چہرہ سپاٹ ہوجاتا۔ نظریں سامنے والی دیوار پر جم جاتیں۔ تھوڑی دیر بعد کوئی اور خیال ذہن کے پردے پر ابھرتا تو قیدی زیرلب مسکرانے لگتا۔ بالوں کو ایک ہاتھ سے جھٹک کر پیچھے کرتا اور سر دیوار کیساتھ ٹکا دیتا۔
اسی دوران قیدی کو قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہی لاٹھی سے زمین پر تین دفعہ آواز پیدا ہوئی۔ قیدی نے کھانسنے کی آواز پیدا کی کاغذ کو سلاخوں کے قریب رکھا۔ اور اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ آنے والے شخص نے ٹٹول کر سلاخوں کے پیچھے سے کاغذ اٹھایا اور چلا گیا۔
اب قیدی پوری طرح سے مطمئن تھا۔ اسکی آواز کو بند کرنے کی کوششیں پوری ریاست کررہی تھی۔ لیکن اس کاغذ کے ذریعے قیدی اپنی آواز پوری دنیا تک پہچانے والا تھا۔ وہ آواز جس کا بوجھ ریاست کا کوئی ٹی وی کوئی اخبار نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ صبح ہوتے ہی وہ آواز دنیا کے سب سے مشہور اخبار اکانومسٹ تک پہنچ جانی تھی اور بے ضمیروں بے شرموں کے سروں پر ہتھوڑے کی طرح برسنے والی تھی۔