07/04/2023
عورت_برائے_فروخت
وہ شکل سے شریف گھر کی بیٹی لگ رہی تھی میں پاس گیا
میرے قریب ہو کر بولی
چلو گے صاحب
میں نے پوچھا کتبے پیسے لو گی
کہنے لگی آپ کتنے دیں گے
میں نے اس کی نیلی سی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
وہ بے بس سی تھی میں نے بولا آو کار میں بیٹھو
وہ ڈر رہی تھی
کہنے لگی کتنے آدمی ہو میں نے کہا ڈرو نہیں
میں اکیلا ہی ہوں
وہ خاموش بیٹھی رہی
پھر کہنے لگی آپ مجھے سگریٹ سے اذیت تو نہیں دو گے نا
میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
پھر اس نے ایک لمبی سانس بھری
آپ میرے ساتھ کوئی ظلم تو نہیں کریں گے نا
آپ چاہے مجھے 500 کم دے دینا لیکن میرے ساتھ برا نہ کرنا پلیز
وہ بہت خوبصورت تھی معصومیت اس کی باتوں سے ٹپک رہی تھی
پھر بھی خدا جانے وہ کیوں جسم بیچنے پہ مجبور تھی
وہ نہیں جانتی تھی میں کون ہوں
میں نے پوچھا کھانا کھایا ہے کہنے لگی نہیں
میں ہوٹل کے سامنے کار رکی ہوٹل والا مجھے جانتا تھا
اس نے جلدی سے کھانا پیک کیا مجھے دیا
میں کار میں بیٹھ گیا آ کر
میں اپنے ڈیرہ کی طرف چل دیا
چوکیدار نے دروازہ کھولا میں کار پارک کی
رات کے 11 بج رہے تھے
وہ مسلسل میری طرف دیکھے جا رہی تھی
میں نے کھانا پلیٹ میں ڈالا
اسے کہا ہاتھ دھو لو
وہ کہنے لگی میں نے نہیں کھانا
میں نے پیار سے کہا ڈرو نہیں کچھ نہیں ہو گا
وہ ہاتھ دھو کر آئی
میرے سامنے کرسی پہ بیٹھ گئی اور کھانا کھانے لگی
جب کھانا کھا لیا تو کچھ کھانا بچ گیا کہنے لگی یہ میں گھر لے جا سکتی ہوں میں مسکرایا بلکل بھی نہیں
وہ چپ ہو گئی برقع اتارنے لگی میں نے کہا رک جائیں
میرے پاس آ کر بیٹھ جائیں
وہ حیران تھی
میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی جلدی سے اہنا کام کریں مجھے واپس چھوڑ آئیں
میں نے کہا نہیں پوچھوں گا کیوں کرتی ہو ایسا
کیوں بیچتی ہو جسم
بس اتنا کہوں گا چھوڑ سکتی ہو کیا یہ سب
وہ میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی آپ پاگل لگ رہیں مجھے
میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا
ہاں پاگل ہی ہوں میں
سب پاگل ہی سمجھتے ہیں مجھے
وہ کہنے لگی اگر کچھ کرنا نہیں ہے تو مجھے واپس چھوڑ کر آو
میں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
پھر پرس سے 10k نکالے اس کے ہاتھ پہ رکھے
وہ حیران تھی کہنے لگی میں نے نہیں لینے
آپ کیوں دے رہے ہیں یہ پیسے مجھے
میں نے اس کے چہرے پہ ایک تھکن محسوس کی تھی
وہ اپنے آنسو روکے بیٹھی تھی
بار بار کہہ رہی تھی مجھے بس واپس چھوڑ کر آو
مجھے ڈر لگ رہا ہے
میں نے اسے یقین دلایا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے
اچھا بتاو نا بہت درد دیا نا زندگی نے
یہ سننا تھا
اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں
جیسے کوئی قیامت گر گئی ہو اس پہ
میں سمجھ چکا تھا کوئی بہت بڑا درد لیئے گھوم رہی ہے دروازہ کھولا کانپتی آواز میں بولی مجھے چھوڑ کر آو واپس
میں نے اسے بیٹھنے کا کہا
بتایا میرا نام مصطفَے ہے ڈرو نہیں
خود کو محفوظ سمجھو
اسے جب یقین ہو گیا پریشانی والی کوئی بات نہیں تو
بتانے لگی
شوہر مر گیا تین بیٹیاں ہیں
سسرال والوں نے نکال دیا
ماں باپ فوت ہو چکے ہیں بھائی کوئی ہے نہیں ماموں کے گھر آئی
ماموں کے بیٹے نے میرے ساتھ زیادتی کی
میں نے جب مامی کو بتایا تو سب نے مجھے غلط کہا
مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا
دور کے رشتہ دار نے ایک بڈھے سے میری شادی کروائی اس کے بھی بچے تھے
اس کے بچوں نے مجھے بہت ذلیل کیا
پھر وہ شوہر بھی فوت ہو گیا
بیٹیوں کو لیئے در بدر لیئے بھٹکنے لگی
نہ چھت تھی نہ روٹی تھی
بھوک افلاس تھی
سڑک پہ کھڑی تھی ایک صاحب آئے کہنے لگے ایک گھنٹے کے 5 ہزار دوں گا
نہ چاہتے ہوئے ماں کی ممتا حالات کی ستائی ہوئی کیا کرتی آخر چل دی
اب ہر روز جسم بیچتی ہوں کرائے گا گھر لیا ہے بیٹیوں کو اکیلا چھوڑ کر آتی ہوں
کیا کروں بہت بار سوچا خود کشی کر لوں لیکن بیٹیوں کو دیکھ کر ہمت نہیں ہوتی
وہ رو رہی تھی میں زمانے کی بے حسی محسوس کر رہا تھا
اس کے سر پہ ہاتھ رکھا اس کہا ....... تمہارا بھائی ہے آج سے
تم اپنی بیٹیوں کو لو اور میرے ڈیرہ کے اوپر والے ایک روم میں رہو
وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی
کار میں بٹھایا اس کے گھر پہنچا
بیٹیاں سوئی ہوئی تھیں بہت پیاری تھیں
گود میں اٹھایا دل کو سکون ملا
وہ مسلسل روئے جا رہی تھی
مجھے کہنے لگی آپ فرشتے ہیں
آپ کون ہیں
میں اسے اپنے آفس لے آیا
وہ دعائیں دینے لگی جھولی اٹھا کر نہ جانے کتنی دعائیں دیتی رہی میں نے اسے کہا جا کر سو جائیں
اپنے ڈیرہ میں گیا میرے سامنے سے وہ چہرہ گزرا جو ایک لڑکی اپنے شوہر سے جھگڑا رہی تھی
اسے کہہ رہی تھی مجھے طلاق دو تم کو میری قدر ہی نہیں ہے وہ اپنا گھر جلا رہی تھی اپنی بے وقوفی کی وجہ سے
وہ بیچاری کیا جانے زمانے کی تلخیاں کیا ہوتی ہیں
زمانے کا ڈسنا کیا ہوتا ہے میں بتانا چاہتا تھا اپنا گھر جان بوجھ کر اجاڑنے والی لڑکیوں کو طلاقیں لینا آسان ہے اس کے بعد جینا موت ہے
کبھی ساس کا رونا کبھی نند کا سیاپا کبھی جھٹانی سے لڑائی یہ ہر گھر کی بات ہے
اس کا ہرگز مطلب طلاق لینا یا گھر اجاڑنا نہیں ہے کم عمری میں ہی میرے سر کے بال سفید ہو گئے ہیں ہزاروں آنکھوں کے آنسو دیکھ کر
اپنے گھروں کو آباد رکھو.
عورت خدا کی قسم میرے معاشرے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک قیدی ہے
کبھی باپ کی پگڑی پہ لٹ گئی تو کبھی ساس کے زہر آلود لہجے پہ
کبھی شوہر کی انا پہ خاک ہو گئی تو کبھی اولاد کی وجہ سے
مرد اگر سمجھ جائیں میری اس تحریر کو تو شاید میرا معاشرہ بدل جائے۔