Fun doze

Fun doze Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Fun doze, Party Entertainment Service, .

‏بھارت کے شہر دہلی میں2000 سے زیادہ کار چارجنگ پوائنٹس ہیں، جہاں نارمل چارجنگ ریٹ 3روپے اور فاسٹ چارجنگ ریٹ 7روپے فی یون...
20/01/2024

‏بھارت کے شہر دہلی میں2000 سے زیادہ کار چارجنگ پوائنٹس ہیں، جہاں نارمل چارجنگ ریٹ 3روپے اور فاسٹ چارجنگ ریٹ 7روپے فی یونٹ ہے۔ بھارت 2030 تک 80فیصد الیکٹرک کاریں اور بائیکس استعمال کرے گا، جس سے بھارت کو 60 ارب ڈالر کا فیول امپورٹ نہیں کرنا پڑے گا۔
بھارت کے ساتھ مقابلہ ان چیزوں میں کرنا چاہئیے

مگر ہم واہگہ بارڈر پہ اس بات پہ خوش ہو رہے ہیں کہ ہمارے والے کی ٹانگیں زیادہ اوپر جاتی ہیں ۔

16/12/2023

‏سپریم کورٹ رات کو کیوں کھلی ہے تفصیل تھوڑی سی آسان زبان میں

لاہور ہائیکورٹ میں pti نے شکایت کی کہ الیکشن کمیشن اے سی ڈی سی اور دیگر گورنمنٹ ملازمین کو ریٹرننگ آفیسرز تعینات کر کے الیکشن کروانا چاہتے ہیں جس سے دھاندلی آسانی سے کر کے الیکشن رزلٹ اپنی مرضی کا بنا دیں گے، جس پر لاہور ہائیکورٹ اور پشاور ہائی کورٹ نے اعتراض لگا دیا اور حکم دیا کہ الیکشن کمیشن عدلیہ سے ریٹرننگ آفیسرز لے تاکہ عوام الیکشن کو تسلیم کریں، اس حکم کے تین دن بعد آج شام اچانک چیف جسٹس پاکستان نے عدالت کھول لی اور ہائیکورٹ کے حکم کیخلاف الیکشن کمیشن سے درخواست بھی لی اور نیا بینچ بھی 5 منٹ میں بنا دیا اور اب سماعت ختم ہو چکی ہے جس میں الیکشن کمیشن کے مطابق ہی الیکشن کروانے کا حکم جاری کیا جائے گا یعنی صرف وہ لوگ ریٹرننگ آفیسرز لگیں گے جو ن لیگ کے زیر سرپرست ہیں اور الیکشن رزلٹ انکی مرضی کا لکھیں گے، اب سپریم کورٹ اگر آج اس پر حکم دے دیتی ہے تو یہ 1985 کے بعد پہلا الیکشن ہوگا جہاں بیوروکریٹس کو استعمال کرکے الیکشن دو نمبر رزلٹ سے جیتا جائے گا 1985 میں بھی نواز شریف کو ایسے ہی بیوروکریٹس کے زریعے جتوایا گیا تھا بھٹو کیخلاف...... گیم سمجھ آئی؟

‏میرے پاس چند دن قبل ایک ریٹائرڈ پولیس افسر آئے‘ ان کا چھوٹا سا مسئلہ تھا‘ میں ان کی جتنی مدد کر سکتا تھا میں نے کر دی‘ ...
13/12/2023

‏میرے پاس چند دن قبل ایک ریٹائرڈ پولیس افسر آئے‘ ان کا چھوٹا سا مسئلہ تھا‘ میں ان کی جتنی مدد کر سکتا تھا میں نے کر دی‘ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی تو میں نے ان سے زندگی کا کوئی حیران کن واقعہ سنانے کی درخواست کی۔
میری فرمائش پر انھوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میں نے سوچا‘ مجھے یہ آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہیے‘ پولیس افسر کا کہنا تھا میں 1996میں لاہور میں ایس ایچ او تھا‘ میرے والد علیل تھے‘ میں نے انھیں سروسز اسپتال میں داخل کرا دیا‘ سردیوں کی ایک رات میں ڈیوٹی پر تھا اور والد اسپتال میں اکیلے تھے‘ اچانک ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور وہ الٹیاں کرنے لگے۔

میرے خاندان کا کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا‘ وہ دو مریضوں کا کمرہ تھا‘ ان کے ساتھ دوسرے بیڈ پر ایک مریض داخل تھا‘ اس مریض کا اٹینڈنٹ موجود تھا‘ وہ اٹھا‘ اس نے ڈسٹ بین اور تولیہ لیا اور میرے والد کی مدد کرنے لگا‘ وہ ساری رات ابا جی کی الٹیاں صاف کرتا رہا‘ اس نے انھیں قہوہ بھی بنا کر پلایا اور ان کا سر اور بازو بھی دبائے‘ صبح ڈاکٹر آیا تو اس نے اسے میرے والد کی کیفیت بتائی اور اپنے مریض کی مدد میں لگ گیا‘ میں نو بجے صبح وردی پہن کر تیار ہو کر والد سے ملنے اسپتال آ گیا۔

اباجی کی طبیعت اس وقت تک بحال ہو چکی تھی‘ مجھے انھوں نے اٹینڈنٹ کی طرف اشارہ کر کے بتایا‘ رات میری اس مولوی نے بڑی خدمت کی‘ میں نے اٹینڈنٹ کی طرف دیکھا‘ وہ ایک درمیانی عمر کا باریش دھان پان سا ملازم تھا‘ میں نے مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن پھر سوچا‘ اس نے ساری رات میرے والد کی خدمت کی ہے‘ مجھے اسے ٹپ دینی چاہیے‘ میں نے جیب سے پانچ سو روپے نکالے اور اس کے پاس چلا گیا‘ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔

میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے اسے پانچ سو روپے پکڑانے لگا‘ وہ کرسی پر کسمسایا لیکن میں نے رعونت بھری آواز میں کہا ’’لے مولوی‘ رکھ یہ رقم‘ تیرے کام آئے گی‘‘ وہ نرم آواز میں بولا ’’نہیں بھائی نہیں‘ مجھے کسی معاوضے کی ضرورت نہیں‘ میں نے آپ کے والد کی خدمت اللہ کی رضا کے لیے کی تھی‘‘
میں نے نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیے‘ اس نے واپس نکالے اور میرے ہاتھ میں پکڑانا شروع کر دیے جب کہ میں اسے کندھے سے دباتا جا رہا تھا اور اصرار کر رہا تھا‘ میں اسے بار بار ’’او مولوی چھڈ‘ ضد نہ کر‘ رکھ لے‘ تیرے کام آئیں گے‘‘ بھی کہہ رہا تھا مگر وہ بار بار کہہ رہا تھا‘ میرے پاس اللہ کا دیا بہت ہے‘ مجھے پیسے نہیں چاہییں‘ میں نے رات دیکھا‘ آپ کے والد اکیلے ہیں اور تکلیف میں ہیں‘ میں فارغ تھا لہٰذا میں اللہ کی رضا کے لیے ان کی خدمت کرتا رہا‘ آپ لوگ بس میرے لیے دعا کردیں وغیرہ وغیرہ لیکن میں باز نہ آیا‘ میں نے فیصلہ کر لیا میں ہر صورت اسے پیسے دے کر رہوں گا۔

پولیس افسر رکے‘ اپنی گیلی آنکھیں اور بھاری گلہ صاف کیا اور پھر بولے‘ انسان جب طاقت میں ہوتا ہے تو یہ معمولی معمولی باتوں پر ضد باندھ لیتا ہے‘ یہ ہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے‘ میں نے بھی پیسے دینے کی ضد بنا لی تھی مگر مولوی مجھ سے زیادہ ضدی تھا‘ وہ نہیں مان رہا تھا‘ میں اس کی جیب میں پیسے ڈالتا تھا اور وہ نکال کر کبھی میری جیب میں ڈال دیتا تھا اور کبھی ہاتھ میں پکڑا دیتا تھا۔

میں نے اس دھینگا مشتی میں اس سے پوچھا ’’مولوی یار تم کرتے کیا ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’بس ایسے ہی لوگوں کی خدمت کرتا ہوں‘‘ وہ مجھے اپنا کام نہیں بتانا چاہتا تھا‘ میں نے اب اس کا ذریعہ روزگار جاننے کی ضد بھی بنا لی‘ میں اس سے بار بار اس کا کام پوچھنے لگا‘ اس نے تھوڑی دیر ٹالنے کے بعد بتایا ’’میں کچہری میں کام کرتا ہوں‘‘ مجھے محسوس ہوا یہ کسی عدالت کا اردلی یا کسی وکیل کا چپڑاسی ہو گا‘ میں نے ایک بار پھر پانچ سو روپے اس کی مٹھی میں دے کر اوپر سے اس کی مٹھی دبوچ لی اور پھررعونت سے پوچھا ’’مولوی تم کچہری میں کیا کرتے ہو؟‘‘
اس نے تھوڑی دیر میری طرف دیکھا اور پھر میرے والد کی طرف دیکھا‘ لمبی سانس لی اور پھر آہستہ آواز میں بولا ’’مجھے اللہ نے انصاف کی ذمے داری دی ہے‘ میں لاہور ہائی کورٹ میں جج ہوں‘‘ مجھے اس کی بات کا یقین نہ آیا‘ میں نے پوچھا ’’کیا کہا؟ تم جج ہو!‘‘ اس نے آہستہ آواز میں کہا ’’جی ہاں‘ میرا نام جسٹس منیر احمد مغل ہے اور میں لاہور ہائی کورٹ کا جج ہوں‘‘ یہ سن کر میرے ہاتھ سے پانچ سو روپے گر گئے اور میرا وہ ہاتھ جو میں نے پندرہ منٹ سے اس کے کندھے پر رکھا ہوا تھا وہ اس کے کندھے پر ہی منجمد ہو گیا۔

‏میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آواز حلق میں فریز ہو گئی‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اب کیا کروں؟ جسٹس صاحب نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے سے اتارا‘ کھڑے ہوئے‘ جھک کر فرش سے پانچ سو روپے اٹھائے‘ میری جیب میں ڈالے اور پھر بڑے پیار سے اپنے مریض کی طرف اشارہ کر کے بتایا ’’یہ میرے والد ہیں‘ میں ساری رات ان کی خدمت کرتا ہوں‘ان کا پاخانہ تک صاف کرتا ہوں۔
میں نے رات دیکھا آپ کے والد اکیلے ہیں اور ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے لہٰذا میں انھیں اپنا والد سمجھ کر ان کی خدمت کرتا رہا‘ اس میں شکریے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ یہ سن کر میں شرم سے زمین میں گڑھ گیا کیوں کہ میں صرف ایس ایچ او تھا اور میرے پاس والد کے لیے وقت نہیں تھا‘ میں نے انھیں اکیلا اسپتال میں چھوڑ دیا تھا جب کہ ہائی کورٹ کا جج پوری رات اپنے والد کے ساتھ ساتھ میرے والد کی خدمت بھی کرتا رہااور ان کی الٹیاں بھی صاف کرتا تھا‘ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا‘ میں ان کے پائوں میں جھک گیا مگر اس عظیم شخص نے مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

وہ پولیس افسر اس کے بعد رونے لگے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’کیا آپ کی اس کے بعد جسٹس صاحب سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی؟‘‘ وہ روندھی ہوئی آواز میں بولے ’’بے شمار‘ میں نے زندگی میں ان سے اچھا‘ دین دار‘ ایمان دار اور نڈر انسان نہیں دیکھا‘ ان کا پورا نام جسٹس ڈاکٹر منیر احمد خان مغل تھا‘ انھوں نے دو پی ایچ ڈی کی تھیں‘ ایک پاکستان سے اور دوسری جامعۃ الاظہر مصر سے‘ دوسری پی ایچ ڈی کے لیے انھوں نے باقاعدہ عربی زبان سیکھی تھی۔
انھوں نے اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین پر 24 کتابیں لکھی تھیں‘ وہ ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ تیزی سے مقدمات نبٹانے میں مشہور تھے‘ چیف جسٹس جس مقدمے کا فوری فیصلہ چاہتے تھے وہ مقدمہ جسٹس منیر مغل کی عدالت میں لگ جاتا تھا‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ پولیس افسر کا کہنا تھا‘ جسٹس صاحب غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ ایل ایل بی کے بعد مجسٹریٹ بھرتی ہو گئے‘ محنت کی عادت تھی۔
مجسٹریٹی کے دور میں ان کے پاس کام کم ہوتا تھا لہٰذا انھوں نے عدالتی صفحات کی بیک سائیڈ پر کلمہ لکھنا شروع کر دیا‘ یہ سارا دن کلمہ طیبہ لکھتے رہتے تھے شاید اس پریکٹس کا صلہ تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی انرجی اور ٹائم میں برکت ڈال دی‘ انھوں نے دوران ملازمت ایک پی ایچ ڈی کی‘ پھر عربی زبان سیکھی‘ جامعۃ الاظہر میں داخلہ لیا اور عدالتی ٹائم کے بعد عربی زبان میں تھیسس لکھ کر مصر سے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی‘ وہ ہر نیا قانون پڑھتے اور اس پر فوری طور پر کتاب لکھ دیتے تھے‘ وہ کتاب بھی خود ٹائپ کرتے تھے اور اس سارے کام کے دوران عدالتی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوتی تھی‘ وہ دھڑا دھڑ مقدمات نبٹا دیتے تھے۔
انھوں نے پوری زندگی اپنے والد کی خدمت خود کی‘ ان کا بول وبراز تک خود صاف کرتے تھے‘ والد زیادہ بیمار ہوئے تو ان کے بیڈ پر پائوں کے قریب گھنٹی کا بٹن لگا دیا اور گھنٹی اپنے کمرے میں رکھ لی‘ والد ضرورت پڑنے پر پائوں سے بٹن دبا دیتے تھے اور وہ بھاگ کر ان کے پاس پہنچ جاتے تھے‘ اپنی بیگم کو بھی والد کا کوئی کام نہیں کرنے دیتے تھے۔
میں نے ان سے جسٹس صاحب کی زندگی کے مزید واقعات سنانے کی درخواست کی‘ پولیس افسر ہنس کر بولے‘ ایک بار ان کی عدالت میں جائیداد کے تنازع کا کیس آیا‘ ایک طرف سوٹیڈ بوٹیڈ امیر لوگ کھڑے تھے‘ ان کے ساتھ مہنگے وکیل تھے جب کہ دوسری طرف ایک مفلوک الحال بوڑھا کھڑا تھا‘ اس کا وکیل بھی مسکین اور سستا تھا‘ جسٹس صاحب چند سکینڈز میں معاملہ سمجھ گئے لہٰذا انھوں نے بوڑھے سے پوچھا ’’باباجی آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
بزرگ نے جواب دیا ’’میں پرائمری ٹیچر ہوں‘‘ یہ سن کر جسٹس صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہا‘ ماشاء اللہ ہماری عدالت میں آج ایک استاد آئے ہیں لہٰذا یہ استاد کرسی پر بیٹھیں گے اور عدالت سارا دن ان کے احترام میں کھڑی ہو کر کام کرے گی اور اس کے بعد یہی ہوا‘ وہ بوڑھا استاد کرسی پر بیٹھا رہا جب کہ جسٹس صاحب اپنے عملے اور وکلاء کے ساتھ کھڑے ہو کر کام کرتے رہے‘ جسٹس صاحب نے سارے مقدمے نبٹانے کے بعد آخر میں بوڑھے استاد کا کیس سنا اور پانچ منٹ میں وہ بھی نبٹا دیا‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا جسٹس صاحب حیات ہیں؟‘‘
ان کا جواب تھا ’’جی ہاں لیکن بیمار ہیں اور مفلوج ہیں‘‘ پولیس افسر نے اس کے بعد پرس سے پانچ سو روپے کے پانچ بوسیدہ نوٹ نکالے‘ میرے سامنے رکھے اور کہا ’’یہ وہ پانچ سو روپے ہیں‘ میں آج بھی انھیں تعویذ کی طرح جیب میں رکھتا ہوں‘‘ میں نے نوٹ اٹھائے‘ انھیں بوسا دیا اور اسے واپس پکڑا دیے‘ اس نے بھی وہ چومے اور دوبارہ پرس میں رکھ لیے‘ وہ واقعی تعویذ تھے‘ انھیں ایک اصلی انسان نے چھوا تھا۔

منقول پوسٹ

Win prediction tells the whole story of Australia vs Afghanistan..... 😍😂
08/11/2023

Win prediction tells the whole story of Australia vs Afghanistan..... 😍😂

06/11/2023
 افغان مہاجرین 40سال پہلے خالی ہاتھ یہاں آئے تھے۔۔۔انہوں نے بھیک نہیں مانگی، چوریاں نہیں کیں،سڑک کنارے چشمے،ٹوپیاں،جوتے،...
02/11/2023


افغان مہاجرین 40سال پہلے خالی ہاتھ یہاں آئے تھے۔۔۔
انہوں نے بھیک نہیں مانگی، چوریاں نہیں کیں،سڑک کنارے چشمے،ٹوپیاں،جوتے،قالین،کپڑے بیچے،جوتے پالش کیے،دفتروں میں جاکر مزدوریاں کیں، چوکیداری کی۔
خودداری کی زندگی گزاری،
کبھی انکی خواتین کو بے پردہ نہیں دیکھا،
عزت کیساتھ قابل فخر زندگی گزار کر واپس جانے ان غیرتمندوں کو سلام کرتاہوں۔۔۔۔۔۔۔
اور انکی انے والی زندگی تابناک مستقبل کیلئے دعا گو ہوں۔

21/10/2023

‏مظفرآباد سے لاہور جانے والا
ن لیگ کا قافلہ
دیگوں والی گاڑی کے پیچھے چلتے چلتے پشاور پہنچ گیا 😂✌🏻🤣🤣🤣

Scenes after 21st October.
20/10/2023

Scenes after 21st October.

07/10/2023

امریکہ میں ایک رات ایک ٹیکسی میں ایک مکمل برہنہ خاتون آ کر بیٹھی اور اس نے ڈرائیور کو بتایا کہ اس نے کہاں جانا ہے۔

ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی اسٹارٹ نہیں کی اور وہ بار بار اس خاتون کو دیکھتا رہا تو وہ خاتون بہت غصے میں آکر کہنے لگی۔
تمہارے ساتھ کیا پرابلم ہے، کیا تم نے پہلی بار کسی عورت کو برہنہ دیکھا ہے؟
ٹیکسی ڈرائیور نے جواب دیا...
نہیں، ہر گز نہیں ......!!!!

میں صرف یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آپ نے اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد مجھے کرائے کے جو پیسے دینے ہیں وہ آپ نے اپنی کس جگہ رکھے ہوئے ہیں؟
یہی حالت پاکستان میں اس وقت اس قابض اشرافیہ اور عوام کی ہے-

عوام یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ حالیہ حکومت ہمیں بار بار ریلیف دینے کی تسلی دے رہی ہے تو حکومت ہمیں یہ ریلیف کہاں سے دے گی ؟
کیونکہ یہ حکومت تو مکمل طور پر ننگی ہوچکی ہے تو یہ ہمیں ریلیف کہاں سے دے گی، اس نے ہمیں ریلیف دینے کے پیسے کہاں رکھے ہوئے ہیں؟!؟! 😄😄😄

06/10/2023

ایک شخص نے کابل کے بادشاہ سے کہا کہ،
میں آپ کو ایک ایسی توپ بنا کر دیتا ہوں،
جو یہاں سے دِلّی کو تباہ کر دے گی۔۔

بادشاہ نے اس کو فنڈز جاری کرنے کی
ہدایات کر دی۔۔

اس شخص نے توپ تیار ہو کر دی اور پھر ایک دن بادشاہ کے سامنے اس کا مظاہرہ رکھا گیا۔۔

بادشاہ سلامت تشریف لائے،
اور توپ میں گولا ڈال کر فائر کیا گیا۔۔

زبردست قسم کا دھماکہ ہوا،
ہر طرف دُھوئیں مٹی کے بادل چھا گئے۔۔

جب یہ بادل کچھ چَھٹے تو پتا چلا کہ اس دھماکے سے خود وہ توپ ہی اُڑ گئ تھی۔۔

بادشاہ نے غصے سے اس کاریگر کی جانب دیکھا، تو وہ فوراً کورنش بجا لایا اور بولا،
*دیکھا بادشاہ سلامت، جب یہاں اتنی تباہی ہوئ ہے، تو سوچیں زرا کہ دِلّی کا کیا حال ہوا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!*

😂

*ترقیاتی کاموں میں سندھ کے بعد ہمارا اگلا ٹارگٹ پنجاب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاول*

30/09/2023

یکم اپریل 1929ء کی رات ایک نوجوان غازی علم الدین شہیدؒ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ دہلی دروازہ کے باغ میں جلسہ سننے چلے گئے، جہاں سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے بڑی رقت انگیز تقریر کی۔ دفعہ 144 کا نفاذ تھا جس کی رو سے کسی نوع کا جلسہ یا اجتماع نہیں ہو سکتا تھا، لیکن مسلمانوں کا ایک فقید المثال اجتماع بیرون دہلی دروازہ درگاہ شاہ محمد غوثؒ کے احاطہ میں منعقد ہوا۔ وہاں اس عاشق رسولؐ نے ناموسِ رسالت پر جو تقریر کی، وہ اتنی دل گداز تھی کہ سامعین پر رقت طاری ہو گئی۔ کچھ لوگ تو دھاڑیں مار مارکر رونے لگے۔ شاہ جی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’آج آپ لوگ جناب فخر رسل محمد عربیؐ کے عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج جنس انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرہ میں ہے۔ آج اس جلیل المرتبت کی ناموس معرض خطر میں ہے ،جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے‘‘۔ اس جلسہ میں مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید دہلوی بھی موجود تھے۔ شاہ جی نے ان سے مخاطب ہو کر کہا۔’’آج مفتی کفایت اللہ اور احمد سعید کے دروازے پر اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ اور اُمُّ المومنین خدیجہ الکبرٰیؓ کھڑی آواز دے رہی ہیں۔ ہم تمہاری مائیں ہیں۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں۔ ارے دیکھو! کہیں اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ دروازہ پر تو کھڑی نہیں؟‘‘یہ الفاظ دل کی گہرائیوں سے اس جوش اور ولولہ کے ساتھ اُبل پڑے کہ سامعین کی نظریں معاً دروازے کی طرف اُٹھ گئیں اور ہر طرف سے آہ و بکا کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔’’تمہاری محبتوں کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو، لیکن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج گنبدِ خضرٰی میں رسولؐ اللہ تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہؓ اور عائشہؓ پریشان ہیں۔ بتاؤ! تمہارے دِلوں میں اُمہات المومنین کے لئے کوئی جگہ ہے؟ آج اُمُّ المومنین عائشہؓ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہی عائشہؓ جنہیں رسولؐ اللہ ’’حمیرا‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے،جنہوں نے سید عالم ؐ کو وصال کے وقت مسواک چبا کر دی تھی۔ یاد رکھو کہ اگرتم نے خدیجہؓ اور عائشہؓ کے لئے جانیں دے دیں تو یہ کچھ کم فخر کی بات نہیں‘‘۔شاہ جی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے چین سے نہیں رہ سکتے۔ پولیس جھوٹی، حکومت کوڑھی اور ڈپٹی کمشنر نااہل ہے۔ وہ ہندو اخبارات کی ہرزہ سرائی تو روک نہیں سکتا، لیکن علمائے کرام کی تقریریں روکنا چاہتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دفعہ 144 کے یہیں پرخچے اُڑا دیئے جائیں۔ مَیں دفعہ 144 کو اپنے جوتے کی نوک تلے مسل کر بتا دوں گا

پڑا فلک کو ابھی دِل جلوں سے کام نہیں
جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں

داغ کا یہ شعر شاہ جی نے کچھ اس انداز سے پڑھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے۔ اس تقریر سے سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ لاہور میں بدنام زمانہ کتاب، اس کے مصنف اور ناشر کے خلاف جا بجا جلسے ہونے لگے۔6 اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ مَیں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اُسے واصل جہنم کر دیا اور کہا یہی کام تھا۔ غازی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناحؒ اس مقدمہ کی وکالت کے لئے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی۔31 اکتوبر 1929ء کو علم الدین نے حسبِ معمول تہجد کی نماز پڑھی اور بارگاہِ الٰہی میں دُعاگو ہی تھے کہ انہیں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کمرے کے بند دروازے کے سامنے ہی کسی کے رکنے کی آواز کے کھٹکے پر غازی صاحب نے جو اُدھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم گواہ رہنا کہ میری آخری آرزو کیا تھی۔آپؒ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی۔۔۔ اتنی جلدی آخر کس لئے تھی، ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کہیں مجسٹریٹ یہ تصور نہ کرے کہ محض زندگی کی آخری گھڑیوں کو طول دینے کے لئے دیر کر رہا ہوں۔ داروغہ جیل نے بند دروازہ کھولا۔۔۔ آپ اُٹھے اور مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھتے ہوئے انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا۔ چلئے! دیر نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی آپ تیز تیز قدم اٹھاتے تختۂ دار کی جانب چل پڑے۔ ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اُٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا۔۔۔ جواباً اس نے نعرۂ رسالتؐ بلند کیا۔ تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل میں سبھی قیدی علم الدینؒ کو مبارک باد دینے کے لئے ساری رات سے جاگ رہے ہیں۔ کلمہ شہادت کے ورد سے فضا گونج رہی تھی۔ علم الدینؒ لمحہ بھر کے لئے رکے۔۔۔ مجسٹریٹ اور پولیس کے دستے کی طرف دیکھا، ان کے لب ہلے اور پھر چل دیئے۔تختۂ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ مسلح پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے۔ سب کی نظریں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کی نظروں نے اِس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختۂ دار تک پہنچتے دیکھا تھا، لیکن جس شان اور قوتِ ارادی سے انہوں نے علم الدین کو تختۂ دار کی جانب بڑھتے دیکھا، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ جو ’’حیات‘‘ علم ا لدین کو نصیب ہونے والی تھی، اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند رہتا ہے۔اس وقت آپؒ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی ہوئی تھی اور آپؒ کو سیاہ رنگ کا لباس پہنا دیا گیا۔ جب مجسٹریٹ نے آپؒ سے آپؒ کی آخری خواہش پوچھی تو آپؒ نے فرمایا کہ ’’مَیں پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں۔‘‘بعدازاں علم الدینؒ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے۔ اِس دوران مَیں آپؒ نے اردگرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’تم گواہ رہو کہ مَیں نے حرمت رسولؐ کے لئے راجپال کو قتل کیا ہے۔ اور گواہ رہنا کہ میں عشق رسولؐ میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں۔ آپؒ نے کلمہ شہادت باآوازِ بلند پڑھا اور پھر رسنِ دار کو بوسہ دیا۔ علم الدینؒ حقیقت میں ہر اس شے کو مبارک سمجھتے تھے جو ان کو بارگاہِ حبیب میں پہنچانے کا ذریعہ بن رہی تھی۔ آپؒ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا۔

مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپؒ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا۔۔۔ چند لمحوں میں ہی آپؒ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔۔۔ اس نے جسم کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نہ ہونے دی۔ گویا حضرت عزرائیل نے عاشق رسولؐ کی جان ان کے جسم سے رسہ لٹکنے سے پہلے ہی قبض کر لی ہو اور پھانسی کی زحمت سے بچا لیا ہو۔ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے لاشہ کو پھانسی کے تختہ سے اتارا گیا۔

زینتِ دار بنانا تو کوئی بات نہیں
نعرۂ حق کی کوئی اور سزا دی جائے

ادھر جیل کے باہر علم الدین کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ حکام لاش ان کے حوالے کریں، لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ علم الدین کی میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے۔ انہیں خطرہ تھا کہ مسلمان جلسے اور جلوس نکالیں گے، جن سے حالات خراب ہوں گے۔غازی علم الدین شہیدؒ کی شہادت پر میانوالی میں فرنگی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکلے، ہڑتالیں ہوئیں، شہیدؒ کا سوگ منایا گیا، غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ شہیدؒ کے جنازہ میں قیدیوں کے علاوہ کچھ مقامی مسلمانوں نے بھی شرکت کی۔ حکومت وقت نے میانوالی کے کئی افراد کو گرفتار کیا، ان پر مقدمہ چلایا، جس میں ان کو چھ چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔غازی علم الدین شہیدؒ کی شہادت کے بعد ناعاقبت اندیش گورنر کی ہدایت کے مطابق غازی شہیدؒ کو بے یار و مددگار ایک مردہ اور بے بس قوم کا فرد سمجھ کر اس کی پاک میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔جب یہ خبر لاہور اور مُلک کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو ہر طرف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد جیفری ڈی مونٹ مورنسی گورنر پنجاب سے ملا اور اپنا مطالبہ پیش کیا۔ بالآخر چند شرائط کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ مسلمانوں کا ایک وفد ’’سید مراتب علی شاہ‘‘ اور ’’مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن‘‘ کی قیادت میں 13 نومبر 1929ء کو میانوالی آیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیا۔میانوالی کے ایک معمار نے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصباح غازی علم الدین شہیدؒ کی نعش بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے۔ معمار نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعش میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا اور نعش سے مسحور کن خوشبو آ رہی تھی۔ انہوں نے ڈی سی میانوالی کی کوٹھی پر شہیدؒ کی نعش کو بکس میں محفوظ کیا۔ یہاں سے نعش کو اسٹیشن میانوالی لایا گیا اور ایک سپیشل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور پھر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین شہیدؒ کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔یاد رہے کہ غازی علم الدین شہیدؒ کے جنازہ میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ چار دفعہ پڑھائی گئی۔ پہلی دفعہ نمازِ جنازہ مولانا محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی اور دوسری دفعہ نمازِ جنازہ سید دیدار علی شاہ نے پڑھائی۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ میت کو ’’مولانا سید دیدار علی شاہ‘‘ اور حضرت علامہ اقبال نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ نے غازی علم الدین شہیدؒ کا ماتھا چوما اور کہا:’’اسی تے گلاں کر دے رہ گئے تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا‘‘۔

یہاں ایک ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرنا اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ میانوالی جیل میں معروف ڈاکو محمد خاں نے دوران قید غازی علم الدین شہیدؒ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ رضامند ہوں تو میں انہیں ایک خفیہ سرنگ کے ذریعے جیل سے بحفاظت نکال سکتا ہوں مگر غازی علم الدین شہیدؒ اس پر راضی نہ ہوئے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے امیر قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ گرفتار ہو کر میانوالی جیل میں قید ہوئے۔ دورانِ قید میں ان کی ملاقات عبداللہ نامی ایک ایسے خوش نصیب قیدی وارڈن سے ہوئی،جو جیل میں غازی علم الدین شہیدؒ کی نگرانی پر مامور تھا۔ عبداللہ نے قاضی احسان احمد شجاع آبادی کو کئی مواقع پر غازی علم الدین شہیدؒ کے حالات و واقعات سنائے۔ ایک دن عبداللہ وارڈن نے قاضی صاحب کو بتایا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ غازی علم الدین شہیدؒ والی کوٹھری میں قید ہیں۔ قاضی صاحب نے عبداللہ سے درخواست کی کہ وہ غازی علم الدین شہیدؒ کا کوئی ناقابلِ فراموش واقعہ سنائے۔ عبداللہ وارڈن کے چہرے پر مزید نورانیت اور بشاشت اتر آئی۔ پھر اس نے بتایا کہ جس دن، یعنی 31 اکتوبر 1929ء کو جب غازی علم الدین کو پھانسی ہونا تھی، اس سے ایک روز پہلے مَیں حسب معمول غازیؒ کی کوٹھڑی کا پہرہ دے رہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے میں کوٹھری سے ذرا فاصلے پر عام قیدیوں کی بیرک کی طرف آ گیا۔ مڑ کر کیا دیکھتا ہوں کہ غازی کا کمرہ خوبصورت اور دلکش روشنیوں سے بھر گیا ہے۔مَیں یہ سمجھا کہ شاید غازی علم الدین شہیدؒ نے اپنے کمرے کو آگ لگا لی ہے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ نور کا ایک بادل ہے،جو تیزی سے آسمانوں کی طرف چلا گیا، چنانچہ میں بھاگم بھاگ غازیؒ کی کوٹھری کی طرف بھاگا۔ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پورا کمرہ بہترین اور مسحور کن خوشبوؤں سے معطر اور منور تھا۔ غازیؒ حالت سجدہ میں زار و قطار رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھے تو میں نے ان کی قدم بوسی کی اور خود بھی بے اختیار رونا شروع کر دیا۔ پھر میں نے عرض کیا، غازی صاحب یہ کیا ماجرا تھا؟غازی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔مَیں نے پھر عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ اہم راز اپنے سینے میں لے کر نہ جائیں اور اس واقعہ کی تفصیلات ضرور بتائیں، بہرحال غازیؒ نے میرے بے حد اصرار پر فرمایا، عبداللہ! تمہیں معلوم ہے کہ مجھے کل پھانسی ہو رہی ہے۔ میری دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے لئے شافع محشر، حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ؐ اپنے خاص صحابۂ کرامؓ کے ساتھ یہاں خود تشریف لائے اور بڑی محبت اور شفقت فرمائی۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے مجھ سے پوچھا کہ غازی بیٹا! تمہیں پھانسی کا خوف تو نہیں ہے؟مَیں نے عرض کیا۔ حضور! بالکل نہیں۔ فرمایا: بیٹا اگر کوئی خوف ہے تو آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ مَیں نے پھر عرض کیا۔ حضور! نہیں،ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ پھر پیارے آقا و مولا حضور نبی کریمؐ نے میرے سر پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایا: غازی بیٹا! پھانسی کے وقت جیل حکام تم سے تمہاری آخری خواہش پوچھیں گے، تم کہنا کہ میرے ہاتھ کھول دیں۔ مَیں پھانسی کا پھندا چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تم روزہ رکھ کر آنا، میں تمام صحاب�ۂ کرامؓ اور فرشتوں کے ہمراہ حوض کوثر پر تیرا استقبال کروں گا اور ہم سب روزہ اکٹھے افطار کریں گے‘‘۔یہ ہے تحفظ ناموس رسالتؐ کا صلہ!شہید ناموس رسالت غازی علم الدین شہیدؒ کی ایک زندہ کرامت یہ بھی ہے کہ زندگی میں جب کوئی مشکل یا پریشانی لاحق ہو تو دو رکعت نفل ادا کرے ۔ پھر ایک تسبیح درود شریف پڑھ کر غازی علم الدین شہیدؒ کی لازوال قربانی کا واسطہ دے کر حضوری کی کیفیت میں اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں تو آپ کی حاجت ہر حال میں پوری ہوگی۔ عرصہ دراز سے یہ میرا اور میری فیملی کا آزمودہ نسخہ ہے۔غازی صاحب کا مزارِ پاک لاہور کے مشہور قبرستان ’’میانی صاحب‘‘ نزد چوبرجی چوک لاہور میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ 31 اکتوبر کو آپؒ کی برسی بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو محبتِ رسولؐ کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین!

کفر لرزاں ہے تیرے نام سے اے علم الدین
حق ہے مسرور تیرے نام سے اے علم الدین

29/09/2023

ایک بندہ کھوتے پر آلو بیچنے شہر جارہا تھا کسی نے پوچھا اگر آلو نہ بکے تو کھوتے کے مالک نے کہا کہ کھوتا شہر تو دیکھ لے گا ۔ نگران ح

‏ویڈیو بھی ا رہی ہے فلحال ان تصاویر پر گزارا کریں۔ٹھیک چپیڑیں ماری ہیں
28/09/2023

‏ویڈیو بھی ا رہی ہے فلحال ان تصاویر پر گزارا کریں۔
ٹھیک چپیڑیں ماری ہیں

یہ دن دور نہیں.
27/09/2023

یہ دن دور نہیں.

26/09/2023

ہم کارٹون دیکھنے کی عمر میں خبریں سنتے رہے،کیونکہ ریموٹ ابا کے پاس ہوتا تھا
اور اب خبریں سننے کی عمر میں کارٹون دیکھ رہے ہیں،کیونکہ ریموٹ بچوں کے پاس ہوتا ہے

26/09/2023

*قیامت کے روز بھارت، ایران افغانستان اور چین سے سوال ہوگا کہ تمہارا ہمسایہ بھوک سے مر رہا تھا اور تم چاند پہ جا رہے تھے
حکومت پاکستان

13/12/2021

Pakistan vs Afghanistan T20 world cup match full highlights

01/11/2021
28/10/2021

Pakistan's security to New Zealand
Song by mohammad shami

27/10/2021

security
Yasir shami singing song after Pakistan victory against New Zealand
vs New Zealand

12/04/2020

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fun doze posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Event Planning Service?

Share