02/12/2024
مسجد میں نکاح کرنے کا حکم.
اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی صحیح حدیث موجود نہیں جس سے ہمیں مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب ملتی ہو، یا مسجد میں نکاح کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو.
ایک حدیث میں مسجد میں نکاح کرنے کا حکم آیا ہے تاہم وہ حدیث ضعیف ہے، اس لئے استدلال کے قابل نہیں.
مسجد میں نکاح کرنے کے سلسلے میں علمائے کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے:
1- حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دیتے ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ: رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نکاح عبادت ہے اس لئے مسجد میں منعقد کرنا مستحب ہے، اور یہی بات ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے.
[الفتاوی الکبری (3/ 123)، إعلام الموقعين (3/ 102)، مرقاۃ المفاتيح (5/ 2072)، التیسیر بشرح الجامع الصغیر (1/ 176)، دلیل الفالحين (8/520)]
2- مالکیہ مسجد میں نکاح کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں، حطاب الرعینی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب قرار دینے کی صراحت اہل علم سے نہیں ملتی، تاہم جواز کی حد تک درست ہے.
[مواھب الجلیل (3/ 408)]
3- ابن عثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مسجد میں نکاح کرنے کے استحباب پر کوئی دلیل موجود نہیں، اگر اتفاقاً کسی کا نکاح مسجد میں ہو جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں، لیکن باضابطہ پروگرام بنا کر مسجد میں نکاح کرنا، اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا اور اسے مستحب سمجھنا اس کی کوئی دلیل موجود نہیں.
[لقاء الباب المفتوح (17/ 67)]
ایک شخص نے ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ مسجد میں نکاح کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں، جب کہ آپ اسے بدعت کہتے ہیں، ایسا کیوں؟
شیخ نے جوابا کہا: کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ نے مسجد میں نکاح کرنے کی کوئی دلیل پیش کی ہے؟ سائل نے کہا: نہیں، تو شیخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے کہا: پھر وہ بدعت ہے.
[الکنز الثمين (ص: 144)]
سعودی عرب کی فتاوی کمیٹی نے کہا: مسجد میں نکاح کرنا سنت نہیں ہے، اس سلسلے میں وارد حدیث ضعیف ہے.
[فتاوی اللجنۃ الدائمہ - المجموعۃ الأولی (18/ 113)]
سعودی عرب کی فتاوی کمیٹی سے سوال کیا گیا: مساجد میں نکاح کے انعقاد پر ہمیشگی اور مواظبت برتنا سنت ہے یا بدعت؟
جواب: مساجد یا اس کے علاوہ دیگر جگہوں میں نکاح منعقد کرنے کے سلسلے میں شریعت نے وسعت رکھی ہے، تاہم کوئی ایسی صحیح دلیل نہیں ملتی جس سے یہ پتہ چلے کہ مسجد میں نکاح کرنا سنت ہے، اس لئے جو مسجد میں نکاح کرنے کا اہتمام اور اس کی پابندی کرتا ہے تو یہ بدعت ہوگا.
[فتاویٰ لجنہ دائمہ (18/ 110)]
ایک جگہ سعودی عرب کی فتوی کمیٹی کہتی ہے کہ: مسجد میں نکاح کرنے پر مداومت اور ہمیشگی برتنا، نیز مسجد میں نکاح کرنے کو سنت سمجھنا بدعت ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جس کی شریعت میں دلیل موجود نہیں وہ مردود ہے.
[فتاویٰ لجنہ دائمہ (18/ 111)].
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا مسجد میں نکاح کرنا سنت ہے؟
شیخ نے جواب دیا: سنت نہیں ہے، بلکہ بدعت ہے.
[تسجیلات متفرقہ، کیسٹ 49، 43 منٹ 58 سکینڈ]
خلاصہ کلام یہ کہ: مسجد میں نکاح کرنا نہ سنت ہے اور نہ ہی مستحب، اس سلسلے میں وارد حدیث ضعیف ہے.
اگر مسجد میں نکاح کرنا مستحب ہوتا یا فضیلت والا عمل ہوتا تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا نکاح مسجد میں کرتے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دیتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بکثرت نکاح ہوا لیکن کسی ایک حدیث میں بھی نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہو.
اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ وہ عقد نکاح کو مساجد میں کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے.
یہی حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد آنے والے سلف صالحین کا بھی تھا.
جن اہل علم نے نکاح مسجد میں کرنے کو مستحب قرار دیا ہے انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی ہے، اور استحباب و فضیلت شرعی دلیل سے ثابت ہوتی ہے، اسی علت کی بنیاد پر ابن عثيمين رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہ اللہ کے استحباب والے قول کو مرجوح قرار دیا ہے.
کیوں کہ: ندور حیثما دار الدلیل.
رہی بات جواز کی تو اس کی دلیل موجود ہے، چنانچہ وہ صحابیہ خاتون رضی اللہ عنہا جنہوں نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہبہ کیا تھا ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ ایک صحابی سے مسجد میں ہی کردیا تھا.
[فتح الباری (9/ 206)]
یاد رہے کہ یہ بات اتفاقاً تھی، باضابطہ پروگرام بنا کر یہ نکاح نہیں ہوا تھا، اس لئے یہ استحباب کی دلیل نہیں بن سکتی، زیادہ سے زیادہ ایسے جواز کی دلیل بن سکتی ہے جسے سنت سمجھ کر نہیں کیا جانا چاہئے.
قابل غور بات یہ ہے کہ: ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں عام طور پر مسجد میں نکاح کرنے کو باعث فضیلت سمجھا جاتا ہے، بلکہ نہ کرنے والے کو عجب ترچھی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، مزید یہ کہ لوگ صرف اور صرف اپنے بچے اور بچیوں کے نکاح کیلئے مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کا سفر کرتے ہیں، اور اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں، اور معاشرے کا عام مزاج یہی بن گیا ہے کہ مسجد میں نکاح کرنے کو دینداری تصور کیا جاتا ہے جو کہ سرار غلط ہے، اور یہی وہ صورت ہے جو بدعت ہے، اور جس کی تردید سعودی عرب فتوی کمیٹی، شیخ ابن عثيمين اور شیخ البانی رحمہم اللہ نے کی ہے.
جب جائز عمل سنت کا مقام لے لے تو پھر ایسی صورت میں اس کی وضاحت اور اس عمل پر تردید ضروری ہو جاتی ہے.
واللہ اعلم بالصواب
ابو احمد کلیم الدین یوسف
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ