Ancient Ages

Ancient Ages CC for Entertainment, NewsPapers, HealthTips, G.K. Informative videos, Sports

Beautiful view of a Haveli of Shekhawati خوبصورت حویلی کا منظر شیخاوتی
17/04/2024

Beautiful view of a Haveli of Shekhawati
خوبصورت حویلی کا منظر شیخاوتی

28/11/2023
21/11/2023

خوبصورت الفاظ

16/11/2023

100 or 150 Years ago, Pakistan look a like. Keep watching video.

12/11/2023

"God made formal knowledge available to all people. To the ones close to Him He offered inner knowledge. To the ones who are pure, He offered his revelations. To the ones He loves, He permitted witnessing His Divine Essence. He hid Himself from all of His creation. When they think they know Him, they are in confusion. When they think the veils are lifting, they become veiled. When they think they see Him they become blind. I swear in the name of God most High that His doings are most strange. There is nothing stranger than His doings."

11/11/2023

Announcement:
Today I changed my page name.
Current Circumstances to Ancient Ages.
Admin

09/11/2023

گوشہِ درود میں گوشہ نشینوں کی تبدیلی کے خوبصورت لمحات ❤

قصیدہ المحمدیہ
05/11/2023

قصیدہ المحمدیہ

03/11/2023

عرفان القرآن

02/11/2023

Nature is so beautiful.❣️

31/10/2023

دریائے ستلجدیگر زبانیںڈاؤنلوڈ بشکل پی‌ڈی‌ایفزیر نظر کریںترمیمدریائے ستلج ، پنجاب کے دریاؤں ميں سے ایک دریا کا نام ہے۔ یہ...
21/10/2023

دریائے ستلج
دیگر زبانیں
ڈاؤنلوڈ بشکل پی‌ڈی‌ایف
زیر نظر کریں
ترمیم
دریائے ستلج ، پنجاب کے دریاؤں ميں سے ایک دریا کا نام ہے۔ یہ تبت کی ایک جھیل راکشاستل سے نکلتا ہے اس کی کل لمبائی 1448 کلومیٹر ہے ستلج کو یونانی زبان میں سرخ دریا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا قدیم نام ستادری ہے تبت کے مقامی لوگ اسے دریائے ہاتھی بھی کہتے ہیں دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گزر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا، ضلع ہوشیار پور کے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔ یہاں سے ایک بڑی نہر کی شکل میں جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا دریائے بیاس میں گر کر پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور میں پاکستانی علاقہ میں داخل ہوتا ہے اور اوچ شریف سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہوجاتا ہے یہ مقام بہاولپور سے 62 کلومیٹر مغرب میں ہے۔ دیپالپور کے نزدیک سلیمانکی ہیڈورکس سے گزرتا ہوا بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ نواب بہاولپور نے اپنی ریاست کو زرخیز بنانے کے لیے دریائے ستلج سے نہریں نکالیں، جن کا پانی نہ صرف زمینوں کو سیراب کر رہا ہے بلکہ صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں میں فصلیں اگانے میں استعمال ہوتا ہے۔
1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے دریائے ستلج پر بھاکرہ بند تعمیر کیا ہے، جس سے 450,000 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس کا پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے دریائے ستلج سے سرہند کینال اور وادی ستلج کے نام سے نہری منصوبے تعمیر کرکے علاقے کو زرخیز بنا دیا ہے۔
اس دریا کے پانی سے بھارتی صوبوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں زرعی زمین سیراب کی جاتی ہے۔ دریائے ستلج میں بھارت سے پاکستانی علاقے میں پانی اب صرف سیلاب کی صورت میں داخل ہوتا ہے کیونکہ بھارت اسے Flood Release River کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
1849ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ سے پہلے یہ دریا ایک سرحد کا کام انجام دیتا تھا۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے ستلج، دریائے سندھ سے مل جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دریائے ستلج تحصیل احمد پور شرقیہ کے قصبہ اچ شریف کے نزدیک سے گزرتا تھا۔ اس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔[1]

21/10/2023

ریاست جونا گڑھ
متحدہ ہندوستان کی ایک شاہی ریاست جو 1730ء سے 1948ء تک قائم رہی۔
1748ء میں ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) کا قیام عمل میں آیا۔ 1807ء میں یہ برطانوی محمیہ ریاست بن گئی۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا لیکن سوراشرا کا علاقہ برطانوی راج کے انتظامیہ کے براہ راست تحت کبھی نہیں آیا۔ اس کی بجائے برطانیہ نے اسے ایک سو سے زیادہ نوابی ریاستوں میں تقسیم کر دیا، جو 1947ء تک قائم رہیں۔ موجودہ پرانا شہر جو انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران ترقی پایا سابقہ نوابی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ریاست کے نواب کو 13 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی ۔ تقسیم ہند،(15 اگست 1947ء)، کے وقت اس ریاست کے نواب محمد مہابت خان جی سوم نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے (15 ستمبر، 1947ء) کو اس کی منظوری دے دی گئی۔ نواب کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ کا خشکی کا کوئی راستہ پاکستان سے نہیں ملتا مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔ اس ریاست کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دوریاستوں نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا جس پر نواب جونا گڑھ نے ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردی۔ ان دونوں ریاستوں کے حکمرانوں نے حکومت ہندوستان سے مدد کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی ہندوستانی فوجوں نے 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ کر دیا۔ اس دوران ایک جلاوطن گروپ نے ایک عارضی حکومت قائم کی جس کا سربراہ سمل داس گاندھی (Samaldas Gandhi) کو مقرر کیا گیا جو مہاتما گاندھی کا بھتیجاتھا۔ حکومت ہندوستان نے اسے مجاہد آزادی کا خطاب دیا موجودہ دور میں لاتعداد اسکول، کالج اور ہسپتال اس کے نام سے منسوب کیے گئے ہیں۔

اس نادر تصویر میں مسجد اقصیٰ اور اس کا اصل سرمئی گنبد نمایاں ہے اور اس کے عقب میں قبۃ الصخرہ یعنی سنہری گنبد نظر آ رہا ہ...
21/10/2023

اس نادر تصویر میں مسجد اقصیٰ اور اس کا اصل سرمئی گنبد نمایاں ہے اور اس کے عقب میں قبۃ الصخرہ یعنی سنہری گنبد نظر آ رہا ہے، جسے عموماً غلطی سے مسجد اقصیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اس تصویر سے مقصد یہ غلط فہمی دور کرنا ہے جو اخبارات و جرائد اور ذرائع ابلاغ کی روش کے باعث عام ہے کہ خبر مسجد اقصیٰ کی ہوتی ہے اور تصویر قبۃ الصخرہ یعنی سنہری گنبد کی لگا دی جاتی ہے جبکہ ہر مسلمان کے لیے مسجد اقصیٰ کو صحیح پہچاننا ضروری ہے کیونکہ یہی قبلۂ اول اور مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے اور ذرائع ابلاغ، خصوصاً غیر ملکی، یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان مسجد اقصیٰ کو بھول جائیں۔
حوالہ: اطلس فتوحاتِ اسلامیہ.

میاں غلام شاہ کلہوڑوNawab of Sindh1758  – 1772میاں غلام شاہ کلہوڑو (وفات 1772ء) (سندھی: ميان غلام شاه ڪلهوڙو)‏ ) 1758ء س...
20/10/2023

میاں غلام شاہ کلہوڑو
Nawab of Sindh
1758 – 1772
میاں غلام شاہ کلہوڑو (وفات 1772ء) (سندھی: ميان غلام شاه ڪلهوڙو)‏ ) 1758ء سے کلہوڑہ خاندان کےحکمران تھے ، انہیں اپنے بھائی میاں مرادیاب کلہوڑو کی جگہ کلہوڑہ کے قبائلی سرداروں نے سندھ کا حکمران مقرر کیا۔ انہیں افغان بادشاہ احمد شاہ درانی نے شاہ وردی خان کے لقب سے نوازا تھا۔ وہ نور محمد کلہوڑو کی حکمرانی کے بعد سندھ میں استحکام لانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے ملک کو دوبارہ منظم کیا اور صحرائے تھر کے قریب مرہٹوں اور ان کے مستقل جاگیردار کچ کے راؤ کو شکست دی اور فتح کے ساتھ واپس لوٹا۔ غلام شاہ نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار کی تعمیر کا حکم بھی دیا۔ غلام شاہ کلہوڑو کا مقبرہ حیدرآباد سندھ ، پاکستان میں واقع ہے۔ [1]

کلہوڑا خاندانڪلهوڙا راڄ1701ء–1783ءکلہوڑا خاندان (ڪلهوڙا راڄ) سندھ اور موجودہ پاکستان کے کئی علاقوں پر حکومت کرتا تھا۔ اس...
20/10/2023

کلہوڑا خاندان
ڪلهوڙا راڄ
1701ء–1783ء
کلہوڑا خاندان (ڪلهوڙا راڄ) سندھ اور موجودہ پاکستان کے کئی علاقوں پر حکومت کرتا تھا۔ اس سلطنت کو ایک کلہوڑا قبیلے نے قائم کیا جس نے سندھ پر 1701ء سے 1783ء تک فرمانروائی کی۔ انہیں ابتداًا مغل وزیر مرزا بیگ نے یہاں کی دیکھ ریکھ کے لیے مامور کیا تھا مگر بعد میں ان لوگوں نے اپنی علاحدہ سلطنت قائم کرلی۔ تاہم مغل بادشاہ انہیں کلہوڑا نواب کے طور پر ہی مخاطب ہوتے تھے۔[1]
سندھ کی کلہوڑا حکومت کا آغاز 1701ء سے ہوا جب میاں یا محمد کلہورو کو خدا یار خان کے خطاب سے نوازا گیا تھا اور مغلوں کی جانب سے بالائی سندھ کا والی بنایا گیا تھا۔ بعد میں اسے سبی کا والی بنایا گیا۔ اس نے ایک نئے شہر خداآباد کی تعمیر کی جب اسے اورنگزیب کی جانب سے دریائے سندھ اور نارا کی زمین عطا کی گئی۔ اس کے بعد میاں طاقتور والیوں میں سے ایک بن گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی حکومت کو سیہون اور بکھر تک وسعت دی اور شمالی اور مرکزی سندھ کے فرمانروا بن گئے سوائے ٹھٹہ کے جو مغلوں کے زیرقبضہ تھا۔[1]

کلہوڑا خاندان (1701 ء – 1783ء) سے چار طاقتور حکمران پایہ تخت پر بیٹھے، جن کے نام اس طرح ہیں: میاں نصیر محمد، میاں یار محمد، میاں نور محمد اور میاں غلام شاہ۔

کلہوڑہ راج دور سندھ میں سندھی ادب ، ثقافت اور فن کا سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے دور میں سندھ میں بہت سے نہریں بھی کھودی گئیں ، جس سے زراعت میں بہت مدد ملی۔ سندھ کے مشہور شہر حیدرآباد کی بنیاد بھی کلہوڑا راج نے ایک قدیم موری سلطنت کے نیرون کوٹ نامی گاؤں کے کھنڈر میں رکھی تھی۔ اس وقت ، حیدرآباد کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ [3][4]

Kalhora dynastyڪلهوڙا خاندان‎Dynasty of Sindh1701–1783The Kalhora dynasty (Sindhi: ڪلهوڙا خاندان‎, romanized: Kalhora Kh...
20/10/2023

Kalhora dynasty
ڪلهوڙا خاندان‎
Dynasty of Sindh
1701–1783
The Kalhora dynasty (Sindhi: ڪلهوڙا خاندان‎, romanized: Kalhora Khandaan) was a Sindhi Muslim dynasty based in the region of Sindh, present day Pakistan. The dynasty governed much of Sindh between 1701 and 1783 from their capital of Khudabad, before shifting to Hyderabad from 1768 onwards. They were assigned to hold authority by the Mughal Grand Vizier Mirza Ghazi Beg.[citatio
Kalhora governance of Sindh began around the start of the 18th century when Yar Muhammad Kalhoro was invested with title of Khuda Yar Khan and was made subedar of Upper Sindh by royal decree of the Mughals. Later, after his death, his son was additionally appointed subedar of Sehwan and thus oversaw most of Sindh.[1]

The Kalhora dynasty succumbed during the invasion of Nadir Shah. Mian Ghulam Shah Kalhoro reorganised and consolidated his power, but his son lost control of Sindh and was overthrown by Talpurs amirs. Abdul Nabi Kalhoro was the last Kalhora ruler.[1]
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Kalhora_dynasty

Genghis Khan, National Palace Museum in Taipei, Taiwan
19/10/2023

Genghis Khan, National Palace Museum in Taipei, Taiwan

Mongol Empire
19/10/2023

Mongol Empire

Address

Harunabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ancient Ages posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Harunabad event planning services

Show All