31/08/2023
بشکریہ کامل رند بلوچ
آج ہم جہاں نئی روایات کو اپناتے جارہے ہیں وہاں پرانی روایات معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ آپ شادی بیاہ کی تقاریب کی مثال ہی لے لیجیے۔ پاکستان میں شادی بیاہ کے موقعوں پر پہلے بھی دل کھول کر خرچ کیا جاتا تھا اور آج بھی خرچ کرنے کی روایت برقرار ہے لیکن بہت سی روایات اور یادیں معدوم ہو کر رہ گئی ہیں۔ پرانے وقتوں کی شادیوں میں دعوت نامے انتہائی اہتمام کے ساتھ گھر گھر جا کر دیے جاتے تھے۔ کھانا پکانے والے باورچی انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے تھے۔ ان کا انتخاب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔بیاہ شادیوں پر کھانے پکانے والے باورچی بڑے ماہر خانساماں ہوتے تھے۔ جہاں پلاؤ اور قورمہ پکایا جاتا تھا وہاں زردے کی دیگیں ضرور پکائی جاتی تھیں۔ دیگیں پکانے والے عام طور پر نائی ہوتے تھے۔ وہ آتے ہی ایک مطالبہ ضرور کرتے کہ زردے کی پچھ یعنی ابلے ہوئے زردے کا پانی نکالنے کے لیے ایک چار پائی لا دیں۔ وہ اپنی طرف سے لائی ہوئی کسی بوری کا چوڑاٹکڑا چارپائی پر الٹا کر کے یا ویسے سیدھی چارپائی پر ہی بچھا دیتے۔ جب دیگ میں زردے کے چاول خوب کھولنے لگتے تو دیگ کو چارپائی پر الٹا دیا جاتا۔ زردے کا زرد پانی بورئیے کے ٹکڑے میں سے چھن کر نیچے بہہ جاتا اور زرد چاول بوری کے اوپر رہ جاتے۔ دوسرے روز اگر برات دن کے وقت آنی ہوتی تھی تو باورچی صاحب رات کو ہی آ جاتے۔ مکان کے صحن میں باہر گلی میں بجلی کا بڑا بلب یا گیس روشن کر دیا جاتا۔ آمنے سامنے دو تین چارپائیاں بچھ جاتیں۔ گھر کے ایک دو مدبر آدمی باورچی کے پاس چارپائی پر بیٹھ جاتے۔باورچی صاحب اپنے شاگرد کو لہسن پیاز کاٹنے پر لگا دیتے اور خود بریانی یا پلاؤ اور قورمے کا مصالحہ تیار کرنے میں لگ جاتے۔دوسری چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے مدبر بڑے بوڑھے لوگ حقہ پیتے ہوئے کسی بھانجے یا اپنے بچوں کی شادی پر پکنے والے کھانوں کی تفصیل بیان کرنا شروع کر دیتے۔ نوکر اینٹیں جوڑ کر بنائے ہوئے چولہے میں لکڑیاں بڑی خاص ترتیب سے لگا کر آگ روشن کرتا۔ اس پر پانی گرم کرنے کے واسطے دیگ چڑھا دیتا۔ جب پانی خوب گرم ہو جاتا تو بڑے سے ٹب میں ڈالی ہوئی پلیٹیں اور کراکری وغیرہ کا دوسرا سامان گرم پانی سے دھو دھو کر ایک دوسرے صاف ستھرے ٹب میں یا بڑی میز پر لگا دیا جاتا۔ زردے اور پلاؤ کی دیگیں بارات کے آنے پر دم کی جاتیں۔ اگر زردے کے ساتھ باراتیوں کی تواضع آلو بخارے کے مربے اور فرنی سے کی جانی ہوتی تو فرنی کی ٹھوٹھیاں ورق لگا کر گھر کے کسی کمرے کے فرش پر لگا کر رکھ دی جاتیں اور اس کی خاص طور پر حفاظت کی جاتی۔بیاہ شادیوں پر ایک چیز دلچسپ ہوتی تھی۔ جب نائی دم پر رکھی ہوئی دیگوں کی گردن میں بڑے کھانچے سے چولہے کے انگارے بڑی چابک دستی سے ڈالتا جاتا تھا۔ کچھ دیر بعد جب دیگ کی گردن میں پڑے ہوئے آگ سے سرخ انگارے بجھ جاتے اور ان کی راکھ باقی رہ جاتی تو انھیں دیکھ کر یوں لگتا جیسے دیگوں نے سفید پھول کے ہار ڈال رکھے ہیں۔ پرانی شادیوں میں دولہا گھوڑے پر بیٹھے ہوتے تھے۔ چہرہ گیندے کے پھولوں یا تلے کی جھالروں میں چھپا ہوتا تھا۔ پہلے زمانے میں دولہا نے گلاب اور گیندے کے ہار گلے میں ڈالے ہوتے تھے۔ پھر جب کمرشل عہد شروع ہوا تو پھر گیندے گلاب کے پھولوں کی جگہ سو سو پچاس پچاس کے کرنسی نوٹوں کے ہاروں نے لے لی۔ دولہے کا گھوڑا خوب سجا ہوتا تھا۔ اور دولہے کے پیچھے ایک شہ بالا بیٹھا ہوتا تھا۔ یہ شہ بالا دولہا کا کوئی قریبی پانچ چھ برس کا بچہ ہوتا تھا۔ جس نے دولہا کو دونوں بازوں سے بڑی مضبوطی اور بڑی مشکل سے پکڑرکھاہوتا تھا۔
برات کو محلے کے کسی شادی گھر میں یا ہمسائیوں کے دو تین کمرے لے کر وہاں جازم بچھا کر دستر خوان بچھا دیا جاتا تھا۔ براتی آمنے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور پھر پلاؤ زردہ آنے کا انتظار شروع ہو جاتا جو بڑا صبر آزما ہوتا تھا۔ پلاؤ زردے کی خوشبوئیں بہت آتی تھیں لیکن پلاؤ نہیں آتا تھا۔ براتی گردنیں اٹھا اٹھا کر اس دروازے کی طرف دیکھتے تھے جہاں سے پلاؤ اور زردے نے آنا ہوتا تھا۔خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتیں اور آمنے سامنے براتیوں کے آگے تانبے کا یا پیتل کا خالی گلاس رکھ دیا جاتا۔ پھر پانی والا آ کر ان گلاسوں کو پانی سے بھر جاتا۔ پھر تھالیاں رکھنے والا آکر دو براتیوں کے درمیان ایک ایک تھالی رکھ جاتا۔ پھر اچانک غنچہ امید کھل اٹھتا اور دروازے میں دو آدمی نمودار ہوتے۔ ایک نے اپنے ہاتھ میں پلاؤ سے لبالب بھرا ہوا تھال اٹھایا ہوتااور دوسرے نے ہاتھ میں چھوٹی تھالی پکڑی ہوتی۔ اندر آتے ہی چھوٹی تھالی والا آدمی پلاؤ والے تھال میں سے تھالی بھر بھر کر بل مقابل بیٹھے دونوں براتیوں کے درمیان میں رکھی تھالی میں ڈالتا چلا جاتا۔ جب کمرے میں لگی براتیوں کی دونوں قطاروں کی تھالیاں پلاؤ سے ہم آغوش ہو جاتیں تو ایک آدمی تھال میں شوربے کی پیالیاں لیے داخل ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا آدمی ہوتا جو براتیوں کے آگے شوربے کی ایک ایک پیالی رکھتا چلا جاتا۔ پھر آلو بخارے کی چٹنی والا آتا اور چٹنی کی مٹی کے چھوٹے سائز کیدئیے جتنی ٹھوٹھی رکھتا چلا جاتا۔ مگر اصول کے مطابق جب تک سارے براتیوں میں کھانا تقسیم نہیں ہو جاتا پلاؤ کا نوالہ اٹھانا برا سمجھا جاتا تھا۔ آمنے سامنے بیٹھیدونوں براتی ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھا رہے ہوتے تھے۔ ایک ایک بوٹی والا پیالے کا شوربہ پلاؤ ہر الٹ دیا جاتا تھا۔ ایک آدمی اپنی طرف والے پلاؤ میں ایک طرف دو انگلیاں ڈال کر خفیہ طور پر اس طرح اندر ہی اندر راستہ بنا دیتا کہ سارا شوربہ اس کی طرف آ جائے۔ دوسرا بھی اسی حکمت عملی پر عمل کرتا۔ پھر تھالی میں پڑی دو بوٹیوں کے لیے بڑی شریفانہ کھینچا تانی شروع ہو جاتی۔ شوربے کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی تھی لیکن اس کی مقدار پلاؤ کی نسبت ہمیشہ کم ہی ہوتی تھی۔ عام طور پر پلاؤ کی دیگ پر کوئی سخی بزرگ بیٹھایا جاتا تھا جبکہ شوربے کی دیگ پر کنجوس بزرگ کی ڈیوٹی ہوتی تھی جو کہ آگے پیچھے بہت محبت سے پیش آتے تھے لیکن شوربے کی دیگ پر بیٹھتے ہی وہ بزرگ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے تھے۔ لیکن جو کچھ بھی تھا انتہائی دلچسپ اور رومانوی محسوس ہوتا تھا۔
یہ سچ ہے کہ آج یہ روایات اور کلچر زندہ نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت صدا ایک سا نہیں رہتا۔ زمانے نے بدلنا ہے اور وہ بدل کر ہی رہتا ہے۔ پرانی روایات نے ختم ہونا ہوتا ہے اور نئی روایات نے جنم لینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اسے بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ زندہ قومیں اپنی دینی، علمی ، معاشرتی ، ادبی روایات اور ثقافتی ورثے کو کبھی فراموش نہیں کیا کرتیں۔