360 degree islamic event management

360 degree islamic event management Professional services we are dealing even with individual
(1)

02/11/2022
03/05/2022

First Day of Eid Ul Fitr.
A Very Happy Eid Mubarak to Everyone from city of lights.

News of the Day.The billionaire philanthropist, who is alsoa major contributor in worldwide polio eradication, was given...
17/02/2022

News of the Day.

The billionaire philanthropist, who is alsoa major contributor in worldwide polio eradication, was given a detailed briefing on Pakistan's efforts to wipe the virus out of the country

News of the Day.

Bill Gates Founder of Microsoft has arrived Pakistan for a day long Visit, sources said.

Sources privy to the matter said that Gates will meet Prime Minister Imran Khan and President Arif Alvi and visit the National Command and Operation Centre headquarters on the occasion.

The billionaire philanthropist, who is alsoa major contributor in worldwide polio eradication, was given a detailed briefing on Pakistan's efforts to wipe the virus out of the country.

14/02/2022
27/12/2021

ایک بیٹھک وزیر اطلاعات کے ساتھ۔

تحریر راجہ حسین راجوا

وزیر اطلاعات، منصوبہ بندی و ترقی فتح اللہ خان کا صحافیوں کے ساتھ ایک تفصیلی نششت ہوٸی، نششت کا مقصد اپنی حکومتی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنا تھا، انھوں نے کہا ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس جاٸیں گے لوگوں نے ہم پر اعتماد کرکے ووٹ دیا ہے ہم پرفارم نہیں کرینگے تو ہوسکتا ہے ہمارا حال بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والوں جیسا ہوگا۔ انھوں نے جمہوری تسلسل کو ایک بہترین عمل قرار دیتے ہوٸے کہا جمہوریت ایک بہترین طرز حکمرانی ہے اور کہا گلگت بلتستان میں 2009 کے مقابلے میں آج حالات بہت بہتر ہیں یہ سب جمہوریت کے ثمرات ہیں۔ صحافی برادری کے مساٸل پہ بات کرتے ہوٸے کہا کہ ہم قانونی سازی کر رہے ہیں اگلے سیشن میں پریس فاونڈیشن بل کو اسمبلی سے پاس کرینگے جس سے ورکنگ جنرلسٹ کو براہ راست فاٸدہ پہنچے گا تاکہ یہ لوگ اور لگن سے اپنا کام کریں گے، انھوں نے کہا صحافی برادری ہی عام عوام کو سچ سے آگاہ رکھ سکتی ہے، مثبت تنقید ایک بہترین عمل ہے جس سے بہت ساری غلط چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں، اگر ہمارا سمت غلط ہوگا تو آپ کی فراٸض میں شامل ہے کہ آپ ہماری اصلاح کرے اور جہاں چیزیں بہتر ہو رہے ہیں اسے بھی عوام کے سامنے لے آٸیں تاکہ بات برابری کی ہو۔

انھوں نے تمام سیکٹرز پہ سیر حاصل گفتگو کی اور کہا ہماری پہلی ترجیع ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹر ہے ہم ان سیکٹرز کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کرینگے، باقی ترقیاتی کاموں میں ہمارا کوٸی مقابلہ نہیں کر سکتا اتنا بڑا ترقیاتی پیکج آج تک کوٸی بھی وفاق سے نہیں لاسکے، پاور سیکٹر بھی ہمارا فوکس ہے عطا آباد اور ہنزل پاور پراجیکٹ کا کام مکمل ہوجاٸے گا تو ان شاء اللہ گلگت بلتستان کے عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نکلیں گے جس سے لوگوں کے کاروبار بھی بحال ہونگے، اپوزیشن والے پہلے چھ مہینوں میں وزیراعلی خالد خورشید کی ہم سے ذیادہ تعریفیں کر رہے تھے وہ یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ خالد خورشید جیسا پڑھا لکھا اور قابل بندہ ہمارے سی ایم ہیں اب انکو کیا ہوگیا اپوزیشن لیڈر امجد ایڈوکیٹ اور حفیظ الرحمن جمہوری روایات کو بھی خاطر میں لاٸے بغیر جو منہ میں آٸے بول دیتے ہیں، وہ دونوں مجھ سے عمر میں بڑے ہیں اسلیے میں انھیں تنقید کرتے وقت بھی الفاظ کی چناٶ میں بڑی احتیاط کر رہا ہوں وہ تو جو منہ میں آٸے بول دیتے ہیں۔

موجودہ اے ڈی پی کے حوالے سے بات کرتے ہوٸے کہا حفیظ الرحمن اتنے نکمے ہیں انھوں نے اے ڈی پی کو پڑھے بغیر کہا کہ گلگت شہر کو کچھ نہیں دیا سارا جگولوٹ لے گٸے ہیں جبکہ میں نے گلگت شہر کیلے 2 ارب کے نٸے سکیم رکھے ہیں، میں عوامی خدمت پر یقین رکھتا ہوں حکومت آنے جانے والی چیز ہے میں حکومت کا بھوکا نہیں ہوں ان کو اپوزیشن کرنے میں بڑی تکلیف ہو رہی ہے وہ حکومت میں آنے کیلے ہر حربہ اپنا رہے ہیں وہ گلگت شہر میں مسجدوں کا سہارا لیتے ہیں، اور جگولوٹ میں قومیت کا، میں ان چیزوں سے پاک ہوں میں بالکل نفیس سیاست کرتا ہوں میری کوٸی ایک میٹنگ بتا دیں کسی مسجد کیمٹی کے ساتھ میں اپنی سیاست چھوڑ دونگا۔

خیر ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پارٹی اور حکومت کے اقدامات کی دفاع کرے، گلگت بلتستان میں پانی کی کوٸی کمی نہیں اس کے باوجود بھی بجلی کی قلت بچھلی حکومتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کیونکہ سیاست دان اگلے دن کا نہیں سوچتا بلکہ اگلی نسل کا سوچتا ہے مسلسل 12 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ بڑی اذیت میں ہیں اسکی وجہ سے لوگوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے، ایجوکیش اور ہیلتھ سیکٹر بھی تباہی کے دہانے پر ہے، حفیظ الرحمن نے ترقیاتی کام ضرور کرواٸے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ چار سال سے وفاق میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہے اگر فنڈنگ روک لیتے تو سارے کام التوا کا شکار ہوسکتے تھے جس کا کریڈٹ وفاقی حکومت کو بھی جاتا ہے، باقی پاکستان انصاف کی گلگت بلتستان میں حکومت بننے کے بعد ایک سال کا عرصہ ابھی ہوا ہے فالحال انکی کارکردگی پہ بات کرنا قبل از وقت ہے آنے والے دور میں انکے کام بولیں گے کہ انھوں کتنا مخلص ہوکر اور علاقے کی مفاد کو مد نظر رکھ کر کام کیا ہے۔

گلگت بلتستان میں سب سے پسا ہوا طبقہ صحافی برادری کا ہے، حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے یہاں کے صحافی مالی مساٸل کا شکار ہیں بہت سارے ورکنگ جنرلسٹ مفت میں یا بہت کم تنخواہ پہ کام کرتے ہیں کیونکہ میڈیا ہاٶسز مالکان خود مالی مساٸل کا شکار ہیں وہ کیسے اپنے رپورٹرز اور سٹاف کی تنخواہیں ادا کر سکتے ہیں حالانکہ یہ دن رات فیلڈ پہ ہی رہتے ہیں وزیر اطلاعات، منصوبہ بندی و ترقی فتح اللہ خان نے ایک اہم بات کی ہم ورکنگ جنرلسٹ کو براہ راست فاٸدہ پہنچانے کیلے جی بی اسمبلی میں باقاعدہ بل لے کر آرہے ہیں جو ایک خوش آٸند بات یہ فالحال زبانی دعوے ہیں آنے والا وقت بتاٸے گا کہ وزیر اطلاعات، منصوبہ بندی و ترقی فتح اللہ خان صحافی برادری کی مالی مساٸل کو حل کرنے کیلے کس حد تک کام کرتے ہیں۔

24/12/2021

جواب چاہیے۔

تحریر: راجہ حسین راجوا

عوام اپنے نماٸندوں کو اسلیے ووٹ دیتے ہیں تاکہ انکی صیح معنوں میں نماٸندگی ہوسکے مساٸل وہاں سے شروع ہوتے ہیں جب اپنے منتخب نماٸندے سہولت کاری کرے یا علاقے کی اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد کو مقدم رکھے، 2009 میں پیپلز پارٹی کو عوام گلگت بلتستان نےاسلیے ووٹ دیا تھا کہ وہ ہماری اجتماعی مفادات کا بہترین انداز میں دفاع کرینگے اور آج تحریک انصاف کو بھی اسی نیت سے ووٹ دے کر ایوانوں تک پہنچایا ہے، بہت ساری چیزیں عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں عوام کا حقیقی نماٸندہ وہ ہوتا ہے جو عوام کے اجتماعی مفاد کی دفاع کر سکے۔ میری نالج کے مطابق سٹیٹ سبجیکٹ رول 1952 میں معطل ہوا ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ 1972 کو معطل کیا گیا ہے۔ اس خطہ میں ہر دور میں پیپلز پارٹی ہی دوسری پارٹیوں کو ٹف ٹاٸم دیتی ہے کیونکہ میری نظام کے خاتمے کے بعد پارٹی کو گلگت بلتستان کے لوگ دل و جاں سے چاہتے تھے۔ ان دنوں گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے، وزیراعلی خالد خورشید گلگت بلتستان کو بڑے بہترین انداز سے لیڈ کر رہے ہیں، پہلی دفعہ گلگت بلتستان کو ایک پڑھا لکھا وزیراعلی ملا ہے جو ہر وقت میرٹ کی بات کرتے ہیں۔

وزیراعلی خالد خورشید خان عہدے کا حلف لینے کے کچھ دن بعد سی ایم سیکریٹریٹ گلگت میں انصاف یوتھ کے ایک وفد سے مخاطب تھے اتفاق سے اس دن میں بھی سی ایم سکریٹریٹ میں موجود تھا یوتھ سے مخاطب ہوکر انھوں نے کہا تھا ہم نے ہر صورت میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے اور ہر سیکٹر میں پچھلی حکومتوں سے بہتر پرفارم کرکے دکھاٸیں گے۔ گلگت بلتستان کا وزیراعلی جن کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے سب سے اہم بات یہ گلگت بلتستان کے مقامی ہیں۔ جی بی کے مقامی ہونے کے ناطے انھوں نے گلگت بلتستان کی ڈومیساٸل کے بغیر زمینوں کی خرید و فروخت پر پابندی عاٸد کردی ہے، گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ باہر کے لوگ جو گلگت بلتستان آکے زمینیں خریدتے ہیں ان پر پابندی عاٸد کردی جاٸے تاکہ ہمارا یہ خطہ محفوظ رہے کیونکہ یہاں پنجاب اور سندھ کی طرح ایکڑوں میں زمینیں نہیں ہیں لوگوں کے پاس محدود زمینیں ہیں انکو بھی باہر کے لوگ بھاری رقوم دے کر خریدیں گے تو لوکل افراد کیلے مستقبل قریب میں مساٸل پیش آسکتے ہیں۔

میرے اس کالم کا موضوع وزیراعلی خالد خورشید کی وہ تقریر ہے جو انھوں نے وزیراعظم کے دورے کے بعد بلتستان میں کی۔ انھوں نے ایک اہم انکشاف کیا اور کہا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں زمینوں کی بندر بانٹ ہوٸی انھوں نے فیڈرل گورنمنٹ کو بغیر پیسوں کے ایسے پراجیکٹ پہ زمینیں دی جہاں گلگت بلتستان گورنمنٹ کا دور دور تک کوٸی واسطہ نہیں تھا پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایک لاکھ چالیس ہزار کنال زمینیں بیچ دی گٸی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی انکشاف ہے جس کا جواب پیپلز پارٹی کے رہنماٶں بالخصوص اس وقت کے وزیراعلی مہدی شاہ اور موجودہ اپوزیشن لیڈر و صوباٸی صدر امجد ایڈوکیٹ کو دینا پڑے گا۔

پیپلز پارٹی جب اقتدار میں تھی امجد ایڈوکیٹ کونسل کے ممبر تھے وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کا حصہ تھے ایک لاکھ چالیس ہزار کنال زمینیں بیچنے تک وزیراعلی کے مطابق انکے اپنے حلقہ میں 700 کنال زمین فیڈرل گورنمنٹ کو مفت میں دے دی گٸ ہے امجد ایڈوکیٹ کو خبر تک نہیں ہوٸی انکی حق حاکمیت و حق ملکیت کی تحریک کو گلگت بلتستان کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے سراہا ہے اور اسکی بھر پور حمایت کی، عوامی زمینیں بیچنے کے بعد لوگوں کو بیوقوف بنانا یہاں کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے، اس وقت محترم اپوزیشن لیڈر کیوں چپ تھے بقول ترجمان وزیراعلی علی تاج انکو کونسل کی ممبری دے کر کہیں چپ تو نہیں کرایا گیا تھا۔

گلگت بلتستان کی زمینوں پر یہاں کے لوگوں کا حق ہے کیونکہ اس خطے کو یہاں کے عوام نے اپنے ذور بازو آذاد کروایا ہے، جو بھی اس خطہ کے ساتھ غداری کرے گا وہ ناکام اور نا مراد رہے گا۔ وزیراعلی کی غیر مقامی افراد پر زمینوں کے خرید و فروخت پر پابندی عاٸد کرنا ایک احسن اقدام ہے، ان کے اس اقدام کی وجہ سے عوام میں خالد خورشید کی مقبولیت میں اضافہ ہوٸی ہے یہ کرسی اور حکومت وقتی ہے آج خالد خورشید اس کرسی میں ہیں تو کل کوٸی اور اس کرسی پہ بیٹھے گا لیکن تاریخ ان کی اس اقدام کی وجہ سے انھیں محافظ گلگت بلتستان کے نام سے یاد کریگی، اسکے ساتھ ساتھ میں امید ظاہر کرونگا کہ اپوزیشن لیڈر و صوباٸی صدر امجد ایڈوکیٹ اپنی پارٹی کے اوپر لگنے والی الزامات پر وضاحت ضرور دینگے نہیں تو تاریخ بڑی ظالم چیز ہے وہ انھیں کبھی نہیں بخشے گی، کیونکہ دھرتی ماں ہوتی ہے اسکی تحفظ کرنا ہم سب پر فرض ہے، اسی دعا کے ساتھ کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنی دھرتی ماں پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کی ہر ممکن دفاع کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین

20/12/2021

دعوت فکر

ازقلم۔ راجہ حسین راجوا

اللہ تعالی نے انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے اور اللہ تعالی نے غور و فکر کرنے پر ذور دیا ہے۔ ہم میں سے کوٸی بھی ریسرچ کرکے یا غور و فکر کرکے مسلمان نہیں ہوا ہے ایک مسلم گھرانے میں ہماری پیداٸش ہوٸی اور آج ہم الحَمْدُ ِلله مسلمان ہیں، ٹھیک اسی طرح آج میں شیعہ ہوں اسلیے شیعہ ہوں میری پیداٸش نگر میں ایک شیعہ گھرانے میں ہوٸی اور اسی ماحول میں میری پرورش ہوگٸی آج میں اپنے آپ کو شیعہ کہلواتا ہوں ٹھیک اسی طرح دیامر میں جنم پانے والا بچہ سنی کہلاتا ہے کیونکہ اس کی پرورش اسی ماحول میں ہوٸی ہے۔

ہم میں سے کسی نے بھی غور و فکر کرنے کی زحمت نہیں کی، ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ میں فلاں مسلک سے اختلاف کیوں رکھتا ہوں اور ہماری مولویوں نے ہمیں غور و فکر کرنے سے روکا ہے، مجتہدین اور مفتیان دین تک ہماری رساٸی نہ ہونے کے برابر ہے مدرسہ میں دو تین سال دال چپاتی توڑ کے آنے والے اپنے سے بہت کم پڑھے لکھے مولوی کی بات پہ اکتفا کرتے ہیں جس سے معاشرے کی صیح معنوں میں اصلاح ممکن نہیں۔ یہ کم پڑھے لکھے اور دین اسلام سے نا واقف مولوی جان بوجھ کر ہمیں آپس میں دست و گریباں کرواتے ہیں جس سے ان کے گھر کے چولہے جلتے ہیں، اگر وہ اختلافات کو ہوا نہیں دیں گے تو معاشرے میں انکی اہمیت میں کمی آجاتی ہے اور انکی مانگ کم ہوتی ہے۔

اللہ پاک نے انسان کو آذاد خلق کیا ہے وہ کسی مولوی یا شیخ کے ماتحت نہیں، اسے نے خود غو و فکر کرنا ہے اور خود اپنے سمت کا تعین کر لینا ہے کہ وہ کیسے اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے علما کے درمیان اختلاف کو باعث رحمت قرار دیا ہے، اس دور میں بیشتر لوگ بڑھے لکھے ہیں وہ دینی و دنیوی معاملات کو بہتر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔

ایک بات اٹل ہے کہ دنیا کے تمام مسالک ایک دوسرے کے قریب آٸینگے تو ایک دوسرے کو سمجھ سکیں گے، اب شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مشترکات کے حوالے سے اپنی اس کم نالج کے ذریعے روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا ، شیعہ اور سنی کے درمیان 5 فیصد اختلافات ہیں وہ فقہی اختلافات ہیں، دین اسلام کے جو بنیادی اصول ہیں وہ دونوں کے مشترک ہیں۔

1. توحید اللہ ایک ہے، ان کا کوٸی شریک نہیں، دونوں مسالک کے مطابق جو اللہ کے وحدانیت پہ شک کرے گا دین اسلام سے خارج ہوگا۔

2. نیوت۔ اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا بھیجے حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں انکے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، اگر کوٸی حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانے گا دین اسلام سے خارج ہوگا۔

3. آسمانی کتابوں پر یقین، توریت، زبور، انجیل، قرآن مجید جو ہمارے آخری نبی محمد ﷺ پر اتری اور اللہ کی یہ کتاب تیس پاروں پر مشتمل ہے۔

4. ملاٸکہ پر یقین اللہ پاک نے ملاٸکہ کو اپنی تسبیع کیلے پیدا کیا، حضرت، میکاٸیل رزق تقسیم کرنے پر معمور ہیں، حضرت جبراٸیل خدا کی وہی نبیوں تک پہنچاتے تھے۔ نکیر و منکر کل قبر میں سوال و جواب کرینگے اور حضرت اسرفیل قیامت کے دن سور پھونکیں گے اور ہر فرشتہ اپنے دیٸے گٸے کام پر معمور ہے۔

5. قیامت پر یقین یہ بات اٹل ہے کہ ایک دن محشر برپا ہوگی جہاں ہمارے اعمال کا حساب لیا جاٸے گا۔

6. نماز دین کی ستون ہے اسے پانچ وقت ادا کرنا ہے اور قبلہ رک ہوکر ادا کرنا ہے۔

7. روزہ اللہ پاک نے اپنے بندوں پر روزے فرض کیا ہے کوٸی مسلمان اس عمل سے بری الزمہ نہیں ہے۔

8. حج ایک فرض عمل ہے اگر کوٸی انسان استطاعت رکھنے کے باوجود یہ فریضہ انجام نہیں دے گا وہ گمراہ ہوجاٸے گا ۔

9. زکوات امیروں کی کماٸی پر غریبوں کا حق ہے اللہ نے مسلمان پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی مال میں سے فقرا کا حصہ الگ کرے۔

ہماری یہ تمام بنیادی چیزیں مشترک ہیں جیسے پہلے کہا ہے فقہی اختلاف کو بنیاد بنا کر معاشرے کو الجھانا اور ایک دوسرے کو قتل کرنا کسی طور پر عقل مندی نہیں، چلاس میں تبلیغی اجتماع ہوا مسلمان اپنی کوٸی ذاتی کاروبار چمکانے جمع نہیں ہوٸے تھے وہ مسلمانوں اور انسانوں کو دعوت فکر دینے کیلے جمع ہوٸے تھے اس اجتماع میں شیعوں کو ذوق در ذوق شرکت کرنی چاہیے اور شیعہ جب مجلس عزا پرپا کرتے ہیں تو وہاں بھی دین کے مساٸل بیان ہوتے ہیں اہلبیت محمد ﷺ ڈھاٸے گٸے ظلم و ستم کا تذکرہ ہوتا ہے اور ہمارے اہلسنت کے دوستوں کو اس میں ذیادہ سے ذیادہ شریک ہونے چاہیے۔ چھوڑیں یہ ملویت خود غور و فکر کریں ہم ایک دوسرے کے قریب آٸینگے تو کسی کو کچھ سمجھا سکیں گے، کسی سے اختلاف رکھنا دشمنی نہیں بلکہ بیٹھ کر علمی بات ہو سکتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے دست بازو بن کر زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین

09/12/2021

ہم کب تک برداشت کرینگے۔

تحریر: راجہ حسین راجوا

پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان جسے خطہ بے آٸین بھی کہا جاتا ہے، سرزمین گلگت بلتستان کی کہانی باقی صوبوں کی نسبت کچھ الگ ہے۔ جب پاکستان 1947 آذاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر و اقصاے تبت میں شامل تھا۔ یہاں مسلمان اکثریت میں تھے لیکن حکمراں سک تھے اسلیے بارٹیشن کے وقت انھوں نے انڈیا کی حمایت کی، گلگت بلتستان کے غیرت مند عوام کو جب خبر ہوٸی کہ پاکستان کے نام سے مسلمانوں کا ایک ملک وجود میں آیا ہے تو گلگت بلتستان کے باسیوں نے کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں اسوقت کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا، یوں یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آذاد کروایا اور سترہ دن اپنی ریاست قاٸم کی جس کے پہلے صدر ساہ رٸیس خان تھے۔ محض سترہ دن بعد پاکستان کے ساتھ بغیر کسی کنڈیشن کے الحاق کیا۔

ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کے ساتھ الحاق اسلیے کیا تھا کہ یہ ملک اسلام کے نام پہ بنا ہے اس میں انصاف ہوگی یہ ہمارے مسلمان بھاٸی ہیں وہ ہمارے لیے کبھی برا نہیں سوچیں گے یہ سوچ کر مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ ضم ہوگٸے۔ گلگت بلتستان کے قوم پرست پارٹیوں کا بھی منشور یہی ہے کہ ہمیں باقی صوبوں کے شہریوں کے برابر حقوق دیٸے جاٸیں، گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ ڈکلیٸیر کیا جاٸے تاکہ یہاں کے لوگوں کا 73 سالہ محرومیوں کا ازالہ ہو سکے، یہ اپنے حقوق مانگ رہے ہیں جب قوم پرستوں سے ہماری بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ریاستی ادارے غدار ڈکلٸیر کرکے شیڈول فور میں ڈال دیتے ہیں اور مختلف دفعات لگا کر پابند سلاسل کرتے ہیں، میں انکی بات سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں اپنے حقوق کیلے لڑنا ایک فطری عمل ہے، فطری طور پہ ہر انسان قوم پرست ہوتا ہے لیکن ملک و قوم کی مضبوطی کیلے بہت سارے لوگ اس کو حوا نہیں دیتے۔

گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں جس کا عملی ثبوت ہمارے پاک فوج بالخصوص این ایل آٸی کے جوان جنہوں نے کارگل جیسے معرکے میں انڈیا کے فوجیوں کو دھول چٹاٸے اور بھارت کے اندر گھس کر انھیں تہس نہس کیا، اور گلگت بلتستان کا بیٹا لالک جان شہید نے نشان حیدر اپنے نام کیا، وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف این ایل آٸی کے جوانوں نے فیصلہ کن آپریشن کیا اور آج بھی جنوبی وزیرستان میں ملک دشمن عناصر کے ساتھ نبرد آزما ہیں اب بھی ہمارے جوان وہاں شہید ہو رہے ہیں۔ اسی ہفتہ سیاچن کی پہاڑوں میں پرواز کرتے ہوٸے میجر عرفان پرچہ جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جام شہادت نوش فرمایا ہماری ان تمام قربانیوں کے باوجود ہمارا مذاق بنایا جا رہا ہے، یہاں کے باسی کب تک ذلیل ہوتے رہیں گے۔

ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کے ساتھ الحاق اسلیے نہیں کیا تھا کہ انکے آنے والی نسل ذلیل و رسوا ہوجاٸے، وفاق اور دوسرے صوبوں کے ذمہ دار لوگ آٸے روز گلگت بلتستان کا مذاق اڑاتے ہیں اور ہماری خدمات کو جوتی کے نوک پہ رکھتے ہیں، کبھی رضا ربانی گلگت کو پاکستان سے الگ کر دیتا ہے تو کبھی احسن اقبال ہمارے ایک جوان کے سوال پہ را کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ موجودہ وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی ایک بیان میں گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیا اب تو حد ہوگٸی عدلیہ کی طرف سے عجیب و غریب بیانات آرہے ہیں گلگت بلتستان میں جسٹس کے طور پہ کام کرنے والے رانا شمیم نے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کے خاطے سے نکال دیا۔ ہم کب تک یہ طعنہ سنتے رہیں گے یہ ذلالت کب تک برداشت کرینگے۔ ہم پاکستان سے دوسرے صوبوں کے شہریوں کے برابر محبت کرتے ہیں اس ملک کے لیے ہم مر مٹنے کیلے تیار ہیں، اس ملک کے لیے ہم نے گراں قدر خدمات انجام دیٸے ہیں لیکن وہ ہمیں سینہ سے لگانے کے بجاٸے ہر دور میں ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے اور رانا شمیم کے بیان کے بعد شوشل میڈیا پہ لوگ اس حرکت کو گلگت بلتستان کے عوام کی بے عزتی قرار دے رہے ہیں یہاں جی بی میں غیرت مند لوگ بستے ہیں وہ ہر چیز کو برداشت کرسکتے ہیں لیکن اپنی تذلیل کھبی برداشت نہیں کریں گے، یہاں کے لوگ باقی صوبوں کے نسبت ذیادہ پڑھے لکھے ہیں اور اپنے معاملات کو بہترین انداز میں ہینڈل کر سکتے ہیں، پاکستان سے بے پناہ محبت نے انکو کسی غیرقانونی اقدام سے روکا ہوا ہے خدارا پاکستان کے ریاستی ادارے اس چیز کا نوٹس لیں اور گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کروانے میں اپنا کردار ادا کرے ہمارا ملک پاکستان کسی بھی غیر آٸینی اور غیر قانونی اقدام کامتحمل نہیں ہوسکتا وہ لوگ جو گلگت بلتستان مخالف بیانات دے رہے ہیں وہی اس ملک کے اصلی دشمن ہیں انکو پہچانیں، ہمارے آبا و اجداد نے جس طرح غیر مشروت طور پہ پاکستان کو گلے لگایا ہے عین اسی طرح آپ ہمیں بھی گلے لگاٸیں تاکہ یہاں کے باسیوں کا 74 سالہ محرمیوں کا ازالہ ہوسکے، پاکستان زندہ باد عوام گلگت بلتستان پاٸندہ باد۔

04/12/2021

سیاسی ورکر کو عزت دو۔

تحریر: راجہ حسین راجوا

سیاست ایک عظیم پیشہ ہے اگر مقصد عوام کی خدمت اور علاقے کی فلاح کے لیے ہو تو ایک عظیم عبادت بھی ہے۔ قرآن میں جہاں حقوق اللہ کا ذکر آیا ہے وہاں حقوق العباد پہ بھی ذور دیا گیا ہے، انسانیت کی خدمت کرنا ایک عظیم عبادت ہے، اگر کوٸی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ کے بندوں کی خدمت کرے، یہ ایک فطری عمل بھی ہے کہ آپ کے ہاتھ سے کسی کے لیے اچھا ہوتا ہے تو ضمیر مطمٸن اور دل خوش ہوجاتا ہے، جس ملک کا سیاسی نظام کمزور ہوں وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں انکی کیس اسٹیڑیز (Case studies)سے پتہ چلتا ہے کہ انکی ترقی کا ایک عنصر یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی طور پہ مضبوط ہیں، اختلاف رکھنا ایک فطری عمل ہے لیکن اس اختلاف کو ہوا دے کر اپنی سیاسی مقاصد کے حصول کیلے لوگوں کو استعمال کرنا کسی صورت دانشمندی نہیں۔

مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آٸے 74 سال ہوگٸے لیکن ہمارا سیاسی ڈھانچہ کبھی بھی مضبوط نہیں رہا، کہتے ہیں "ایک بدترین جمہوریت ایک بہتریں آمریت سے بہتر ہے" لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت اور جمہوری سوچ رکھنے والوں کو ہمیشہ سے شکست ہوٸی ہے، اس میں ہمارے جمہوریت پسند اور جمہوریت کے دعوے داروں کی غلطی ہے انھوں نے جمہوریت کے دعوے ضرور کیے لیکن ان کا طرز سیاست کھبی جمہوری نہیں رہا، ہونا تو یہ چاہیے کہ کوٸی پارٹی عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آتی ہے تو انکے مینڈیٹ کو قبول کرے اور اپوزیشن کی پارٹیاں انکی غلطیوں کی نشان دہی کرے اگر پالیسز عوام کش ہوں تو انکی پالیسیز کو حدف تنقید بناٸے اور عوام کو اس حوالے سے ایجوکیٹ کرے، عوام کے سامنے اپنا منشور رکھے اور عوام کو اعتماد میں لیں کہ ہمیں موقع ملا تو ہم ان سے بہتر پرفارم کر سکتے ہیں، اپنا مشن ویژن عوام کے سامنے رکھیں اور انکو موٹیویٹ کرے کہ ہم ملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت کر سکتے ہیں۔

عموماً سیاست دان دلیل اور منطق پہ بات نہیں کرتے ہیں اپنے مخالف پہ الزامات کا بوچھاڑ کرکے اس کو زیر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ سامنے والے کو گرا کر ہی ہم آگے جاٸینگے، یہ ہرگز ممکن نہیں کہ آپ کسی کو گراکر کر آگے جا سکو گے۔ ہمارے ملک میں جو بھی جمہوری پارٹی اقتدار میں آتی ہے ان کے خلاف دوسری جماعت حکومت گرانے کیلے سازشیں کرتی دکھاٸی دیتی ہے، یہی وجہ ہے اس ملک میں جمہوریت سے ذیادہ آمریت رہی ہے، اس میں کچھ لوگ پاک فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فوجی آفسر نہیں چاہتے کہ جمہوریت مضبوط ہو اس میں کوٸی صداقت نہیں ہے، آپ اپنے ملک کی تاریخ پڑھیں آپ کو اندازہ ہوجاٸے گا یہاں جمہوری قوتوں نے ہی اپنے پاٶں پر کلہاڑا مارا ہے اب جب کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی سچویشن پیدا ہوگی تو ہماری فوج خاموش تماشاٸی بن کر نہیں رہ سکتی انکو عوام کی تحفظ کو ہر ممکن یقینی بنانا ہے انھیں مجبوری کے تحت سیاسی معاملات میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔

ہمارے سیاسی قاٸدین کو اس چیز پہ سوچنا ہوگا کہ وہ کیسے اس ملک کی اور عوام کی بہتر انداز میں خدمت کرسکتے ہیں کیونکہ اس ملک کو سیاست دان ہی درپیش مساٸل سے نکال سکتے ہیں۔ اب انکو ایک حکمت عملی کے تحت چلنا ہوگا تاکہ اس ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں کیونکہ اسی میں ہی ہماری بقا ہے، اختلاف راٸے کو انا کا مسٸلہ بنانے کے بجاٸے اسکو مثبت لیں کیونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے امت کے درمیان اختلاف کو باعث رحمت قرار دیا ہے، اگر سوچا جاٸے تو اختلاف واقعی میں رحمت ہے، اس اختلاف کی وجہ سے اصلاحات ہوتی ہیں اور ساٸنسی اعتبار سے بھی دیکھا جاٸے تو سکالرز کے آپس کی اختلاف کی وجہ سے ہی نٸی نٸی ایجادات سامنے آتی ہیں، جمہوری سوچ رکھنے والی قوتیں واقعی میں جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، سیاسی حریف کے وجود کو قبول کر کے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجاٸے اپنے منشور کو بہتر انداز میں پروجیکٹ کریں، اس ملک کی بقا اور ترقی جمہوریت میں ہی ہے، کیونکہ بدترین جمہوریت بہتریں آمریت سے بہتر ہے۔

پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں سیاسی طبقہ کو نچلے درجہ کا مقام حاصل ہے سیاسی ورکر کو معاشرے میں وہ عزت نہیں ملتی جس کے وہ حقدار ہیں، بلکہ سیاست کو پارٹ ٹاٸم رکھا گیا ہے، ہر پروفیشن کے کیلے اس کے متعلقہ نالج اور تجربے کے حامل افراد کو ترجیع دی جاتی ہے بد قسمتی سے گلگت بلتستان میں کوٸی بھی فل ٹاٸم سیاست نہیں کرتا اسلیے گلگت بلتستان میں لیڈر شپ کا فقدان ہے، پڑھے لکھے اور اچھے افراد کا سیاست میں آنا تو دور کی بات ہے وہ اس حوالے سے سوچتے بھی نہیں ہیں، وہ سمجھتے ہیں سیاست میں ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ وہ سیاست سے دور بھاگتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت نے سیاسی ورکروں کو معاونین اور کوآرڈنیٹرز بناکر سیاسی کمیونٹی کی عزت افزاٸی کی ہے، بہت سارے لوگ اس پہ تنقید کرتے دکھاٸی دے رہے ہیں ہر کسی کو میری بات سے اتفاق کرنا بھی ضروری نہیں، میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید اس اقدام کو سراہتا ہوں انھوں نے سیاسی ورکروں کو عزت دے کر پڑھے لکھے نوجوانوں کی حوصلہ افزاٸی کی ہے کہ آپ الیکشن کنٹس کیے بغیر بھی حکومتی امور کی انجام دہی میں شامل آپ کی خدمات لی جا سکتی ہیں، صابر حسین، یاسر عباس، ظفر محمد شاہدم خیل، عالم نور حیدر اور علی رضا جیسے قابل اور نوجوان افراد حکومت کا حصہ بن چکے ہیں جس سے انکی سیاسی ٹرینگ ہوگی اور آنے والے وقتوں میں گلگت بلتستان کی سرزمین سے عظیم سیاست دان نکلیں گے اور پورے پاکستان کی نماٸندگی کرینگے، کیونکہ قوم کو مشکلات سے سیاست دان ہی نکال سکتے ہیں، اسلیے سیاست دان اور سیاسی ورکرز کو عزت دو۔

13/11/2021

عبوری آٸینی صوبہ!

تحریر : راجہ حسین راجوا

گلگت بلتستان پاکستان کا شمالی پہاڑی علاقہ ہے۔ اس کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کے شمال مشرق میں چین، شمال مغرب میں وا خان کی پٹی، مشرق میں جموں و کشمیر، جنوب مشرق میں آزاد کشمیر اور جنوب مغرب میں خیبر پختونخواہ واقع ہیں۔ گلگت بلتستان کو دس 10 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو گلگت، دیامر، چلاس، ہنزہ، نگر، استور، سکردو، گانگچھے، شگر اور کھرمنگ پر مشتمل ہیں۔ 2017کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریبا" 14 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس علاقے کو "بام جہاں" یعنی دنیا کا ساٸیبان یا چھت بھی کہا جاتا ہے۔ وجہ تسمیہ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا اسی جگہ پر ملنا۔

سن1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو یہاں کے باسیوں کو خبر ہوٸی کہ ایک اسلامی ریاست پاکستان کے نام سے وجود میں آٸی ہے، یہاں کے عوام نے ڈوگرہ کیخلاف مزاحمتی تحریک چلاٸی اور اپنے ذور بازو سے اس علاقے کو یکم نومبر 1948 کو ڈوگرہ راج سے آذاد کرایا اور غیر مشروط طور پہ پاکستان کے ساتھ الحاق کیا یہ علاقہ تقسیم پاک و ہند کے وقت انڈیا کے حصے میں گیا تھا اسلیے یہ خطہ 73 سالوں سے متنازعہ چلا آرہا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ کچھ اصلاحات ضرور آٸے لیکن آج تک یہ علاقہ آٸینی طور پہ پاکستان کا حصہ نہیں بن سکا۔

2020 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف اس نعرے کے ساتھ الیکشن میں آٸی کہ اب کے بار ہم گلگت بلتستان کو صوبہ بناٸیں گے اور اس علاقے کی 73 سالہ محرومیوں کا ازالہ کرینگے۔ عمران خان یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی یوم آزادی کی تقریب میں شریک ہوٸے اور اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی حیثیت دینگے جو یہاں کے لوگوں کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا تعلق محض وزیراعظم کا اعلان نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے یہاں کے عوام کی ایک طویل جدوجہد اور سابقہ حکومتوں کی اقدامات بھی شامل ہیں۔

گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے گلگت بلتستان کی عوام نے اپنے حقوق کیلے پرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھی ہوٸی ہے، ایف سی آر جیسے کالے قانون کی مخالفت سب سے پہلے 1950 میں شروع ہوٸی 1956 میں بننے والی گلگت لیگ نے اصلاحات اور ایف سی آر کے خاتمے کا مطالبہ کیا 1958کے مارشل لاء کے دور میں ان پر پابندی عاٸد کر دی گٸی۔ 1971 میں جب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیراعظم بنے تو انھوں نے گلگت بلتستان میں اصلاحات کا آغاز کیا ایف سی آر اور جاگیردارانہ نظام یعنی راجگی نظام کا خاتمہ کر دیا اور پولیٹکل ایجنسی کے کردار کو بھی ختم کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1994 میں خطے میں جماعتی بنیاد پر انتخابات متعارف کرواٸے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 1999 میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ شمالی علاقہ جات کے لوگ ہر لحاظ سے پاکستانی شہری ہیں انکے بنیادی حقوق کو آٸینی تحفظ دینا ضروری ہے۔ اس دوران ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیا اور 1999 سے 2008 تک اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سیلف ایمپاورمنٹ اینڈ گورنینس آرڈر کے نام سے ایک جامع پیکج متعارف کرایا جس کے تحت نہ صرف شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا نام ملا بلکہ 33 ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی، وزیراعلی کا انتخاب اور وفاق کی جانب سے گورنر کی تقرری بھی عمل میں لایا گیا۔

اس کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام کا آٸینی صوبے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کے برابر حقوق دینے کا مطالبہ بڑھتا رہا۔ 2015 میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے ایک قرارداد پاس کیا جس میں گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اس وقت کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سرتاج عزیز کیمٹی نے شفارشات پیش کرتے ہوٸے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آٸین کے آرٹیکل 51 اور 59 میں ترمیم کرکے جی بی کے عوام کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں نماٸندگی دی جاٸے لیکن ان شفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن سے پہلے عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا تو عوامی حلقے اسکو الیکشن کمپین کا حصہ قرار دیتے تھے۔9 مارچ 2021 کو عوام سے کیے ہوٸے وعدے کے مطابق قاٸد ایوان خالد خورشید نے عبوری صوبے کی قرارداد ایوان میں پیش کیا اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی طرف سے اس قرارداد کے حق میں فیصلہ آگیا جس میں وزیراعظم اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے آٸین میں مناسب ترامیم کرکے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دیا جاٸے اور اس میں خاص خیال رکھا جاٸے کہ مذکورہ ترامیم سے اقوام متحدہ کی مسٸلہ کشمیر سے متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا اصولی موقف برقرار رہے۔

اس قرارداد کو متفقہ طور منظور کروانے پہ وزیراعلی خالد خورشید داد کے مستحق ضرور ہیں اور اس میں انکی ذاتی محنت شامل ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ اس قرارداد کے پاس ہونے سے پوری طرح مطمٸن نہیں کیونکہ ایک ایسا ہی قرارداد 2015 میں بھی پاس ہوا تھا جس کا کوٸی خاطر خواہ فاٸدہ نہیں ملا، اب تک وفاقی حکومت، ریاستی ادارے اور اپوزیشن جی بی کو حقوق دینے کے حوالے سے ایک پیج پہ دکھاٸی دے رہے ہیں آنے والے وقتوں میں پتہ چلے گا گلگت بلتستان کو واقعی عبوری صوبہ بناکر یہاں کی73 سالہ آٸینی محرومیوں کا خاتمہ کرتے ہیں یا اسے بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔

وزیراعلی خالد خورشید اس سلسلے میں کافی محنت کر رہے اور اپوزیشن ممبران بالخصوص اپوزیشن لیڈر امجد ایڈوکیٹ، غلام محمد اور رحمت خالق نے بھی اس قرارداد کی تاٸید کر کے یہ ثابت کردیا کہ ہم آپس میں سیاسی اختلاف ضرور رکھتے ہیں لیکن جب بھی جی بی کو حقوق دینے کی بات ہوگی ہم سب ایک ہیں کیونکہ ہم سب کیلے گلگت بلتستان کا مفاد عزیز ہے۔

04/11/2021

گلگت بلتستان مقابلے کے امتحانات!

تحریر: راجہ حسین راجوا

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے گلگت بلتستان میں مقابلے کے امتحانات ہونے جا رہے ہیں گلگت بلتستان کے ان نوجوانوں کیلے جو بیوروکریسی میں جانے کے لیے آنکھوں میں خواب سجاٸے بیٹھے ہیں یہ ایک نادر موقع ہے تاکہ وہ اپنی محنت اور لگن سے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔ اس حوالے سے گلگت بلتستان کے نوجوانوں سے ہماری بات ہوتی ہے تو وہ کچھ خدشات ظاہر کرتے ہیں، ان کی یہ خدشات بالکل صیح ہیں اور غور طلب ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ ان کے خدشات کو سنیں اور اور انکو حل کرنے کیلے ہر ممکن کوشش کرے کیونکہ یہی ہمارے قوم کے معمار ہیں انھوں نے ہی مستقبل میں گلگت بلتستان کو اور پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے اور اس ملک کا باگ ڈور سنبھالنا ہے۔

گلگت بلتستان میں مقابلے کے امتحانات چار سے پانچ سال میں ایک بار ہوتے ہیں، جبکہ باقی صوبوں میں ہر سال مقابلے کے امتحانات ہوتے ہیں سب سے پہلے یہ مسٸلہ حل طلب ہے، کیونکہ چار سے پانچ سال کا عرصہ بہت ذیادہ ہوتا ہے اور اس دوران بہت سارے نوجوان عمر کی آخر حد پار کر جاتے ہیں، مقابلے کے امتحانات آخری دفعہ 2017 کو ہوٸے تھے اور اب 2021 کو ہورہے ہیں اب انداز لگا لیں 2017 کو جس کی عمر 30 سال تھی ابھی وہ 34 سال کا ہوگیا اور اس سال رکھے گٸے ایج لمٹ (Age limit) کے مطابق وہ مقابلے کے امتحانات کی دوڑ سے باہر ہوگٸے ہیں انہی مساٸل کو لے کر گلگت بلتستان کے نوجوان سراپا احتجاج ہیں۔

2017 کو گلگت بلتستان میں جب مقابلے امتحانات ہوٸے تھے اس میں عمر کی آخری حد 35 سال رکھی گٸی تھی، اس دفعہ کرونا کی وجہ سے دو سال ضاٸع ہوچکے ہیں، پھر بھی نٸے ایڈورٹاٸز ہونے والے اسامیوں کی ٹیسٹ میں جانے کیلے ایف پی ایس سی نے عمر کی آخری حد 33 سال کر دی ہے، وہ تمام نوجوان جو بیوروکریسی میں جانے کے خواب آنکھوں میں سجاٸے بیٹھے تھے اور تیاری کر رہے تھے وہ مقابلے کے امتحان کی دوڑ سے باہر ہوگٸے ہیں، اس دفعہ ہر کوٸی توقع کر رہا تھا کہ کرونا کہ وجہ سے دو سال جو نوجوانوں کے ضاٸع ہوچکے ہیں اس کا بھی ازالہ کرینگے اور عمر کی آخری حد کم از کم 38 سال کر دینگے لیکن اس دفعہ تو پہلے سے بھی دو سال کم کرکے 33 سال کردیاہے جس سے بہت سے قابل نوجوان اذیت میں مبطلا ہیں۔ جبکہ خیبربختون خواہ اور بلوچستان میں کرونا کے سبب عمر کی حد دو سے پانچ سال تک بڑھا دی گٸی ہے۔

دوسرا بڑا مسٸلہ جو اس مقابلے کی تیاری کرنے والے نوجوانوں کو درپیش ہے وہ نیا سلیبس(Syllabus) ہے، کیونکہ مقابلے کے امتحانات کی گونج 2018 سے ہی تھی بلکہ حافظ حفیظ الرحمن کے دور حکومت میں وفاق کو گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے ایک پرپوزل (Proposal) بھی گیا تھا، اسلیے نوجوان پرانے سلیبس (Syllabus) کے مطابق تیاری کر رہے تھے اب اس سلیبس کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے اور سی ایس ایس کا سلیبس ڈال دیا گیا ہے اب وہ نوجوان جو پرانے سلیبس کے مطابق تیاری کر رہے تھے انکو بھی دوبارہ زیرو سے تیاری کرنے کی ضرورت پڑ گٸی ہے۔ مقابلے کی امتحان کو ایڈورٹاٸز کرنے کے بعد صرف دو مہینے کا وقت دیا گیا ہے اتنے کم عرصہ میں امتحان کی تیاری ممکن نہیں۔ جبکہ سی ایس ایس کیلے کم ازکم چار مہینے اور پی ایم ایس کیلے آٹھ مہینے کا وقت دیا جاتا ہے، ابھی نٸی پالیسی کے تحت سی ایس ایس کی سکرینگ ٹیسٹ جو ایم سی کیو بیس ہوگا اسکے لیے بھی تین مہینے کا وقت دے دیا گیا ہے۔

ایف پی ایس سی کی اشتہار کے مطابق نومبر کے آخری ہفتہ میں امتحانات ہونے جا رہے ہیں۔ ایک مسٸلہ یہ بھی درپیش ہے نومبر کے مہینے میں گلگت بلتستان میں سخت سردیاں ہوتی ہیں، گلگت بلتستان کے کچھ اضلاع میں درجہ حرارت ماٸنس دس ڈگری تک گر جاتا ہے، اس سخت سردی میں دن میں دو پیپرز دینا ایک پیپر تین گھنٹے کا ہوتا ہے چھ گھنٹے بغیر چولہے کے ایک نوجوان کیسے پیپر دے سکتا ہے، دوسری بات سردیوں میں گلگت بلتستان میں کم از کم 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جس سے تیاری کیلے مساٸل اور بھی بڑھتے ہیں۔

میرے اطلاعات کے مطابق نوجوانوں کا ایک نماٸندہ وفد اس سلسلے میں وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید اور گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال سے مل بھی چکے ہیں یہ ایک فرد واحد کا مسٸلہ نہیں ہے بلکہ گلگت بلتستان میں بسنے والے تمام نوجوانوں کا اجتماعی مسٸلہ ہے اور وہ سخت اذیت میں ہیں، حکومت وقت ہمارے ان نوجوانوں کی مساٸل کو ترجیحی بنیادوں پہ حل کرنے کی کوشش کرے، ان کے مطالبات حل طلب ہیں گلگت بلتستان گورنمنٹ ایف پی ایس سی کو ایک لیٹر کرے فارم جمع کرنے تاریخ نکل چکی ہے اس کو ری اوپن کرواٸے اور عمر کی حد بڑھانے کی ریکویسٹ کرے، اس سے نوجوانوں کو دو سے تین مہینے کا اور وقت ملے گا بلکہ مارچ تک تاریخ بڑھا دی جاٸے اس سے نوجوانوں کی بہترین تیاری بھی ہوگی ، وہ لوگ جو عمر کی حد نکل جانے کی وجہ سے اذیت میں ہیں انکو بھی ایک ریلیف مل جاٸے گی اور موسم بھی خوشگوار ہوگا۔ انٹرویو کے دوران نوجوان مطمٸن بھی دکھاٸی دے رہے تھے کہ گلگت بلتستان گورنمنٹ بالخصوص وزیراعلی خالد خورشید ایک بڑے لکھے اور نوجوان قیادت ہیں وہ ہمارے ان مطالبات کی نوعیت کو سمجھیں گے بھی اور انکو بہترین انداز میں حل بھی کرینگے۔

Address

Karachi

Telephone

03158596571

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 360 degree islamic event management posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category

Nearby event planning services


Other Event Planners in Karachi

Show All

You may also like