I Love you

I Love you DUA M YAD

Shoaib Malik weds Sana javed ❤️.
21/01/2024

Shoaib Malik weds Sana javed ❤️.

13/01/2024

💞💞💞💞💞💞💞


10/01/2024

Great.............., 👍..






Garena Liên Quân Mobile Lahore, Pakistan Indian Cricket Team Erling Haaland Kashif Ali

10/01/2024
05/01/2024

Wao

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کیسے وفا پہ یقیں کر لیں قسط نمبر 18۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کی چاہت پا کے سب کچھ تو ...
01/01/2024

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیسے وفا پہ یقیں کر لیں
قسط نمبر 18
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کی چاہت پا کے سب کچھ تو نے کھویا
تو نے ہے کاٹا وہی ،جو تھا تو نے بویا
محبت نہ کی تھی ،کیا تھا تو نے سودا
مجھ کو دیا نہ تھا، دیا تھا خود کو دھوکہ
سچ سے منہ موڑ لیا ہے ہائے خسارہ کر بیٹھے ہیں
مرنے سے پہلے مرنے کا نظارہ کر بیٹھے ہیں

اوپری منزل میں بنے اپنے کمرے میں موجود احسن کے سرہانے بیٹھے وہ ہسپتال کے مناظر کو سوچ رہی تھی۔ ذہن انتشار کا شکار تھا۔ وہ خود کو مٹی ہوتا محسوس کر رہی تھی۔ اپنے سب سے قریبی رشتے کے بارے میں جاننے کے سارے اختیار وہ کھو چکی تھی۔ خود ہی تو اس نے یہ راستہ چنا تھا۔ جو اس راہ پہ اس کو لے کر آیا تھا وہ تو اس سے بھی گلہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بھی برابر کی گناہگار تھی۔ یا شاید زیادہ کیونکہ وہ کسی کی بیوی اور ماں تھی۔ دوستی کا رشتہ اتنا اہم نہیں تھا جتنا ایک باوفا بیوی اور ایک ممتا سے بھرپور ماں کا تھا۔ اس نے ایک انسان کا ضبط آخری حد تک آزمایا تھا۔ اس نے کسی کی محبت کا بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔ اس کے بچے اس کے ہوتے ہوئے بھی ماں کی ممتا سے محروم رہ گئے تھے۔ شہروز تو بہت چھوٹا تھا۔ اس نے صالح کا عورت ذات سے بھروسہ ختم کر دیا تھا۔ کیا کوئی با وفا بیوی یوں دھوکہ دیتی ہے؟ کیا کوئی ماں اپنی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتی ہے؟ کیا تھی وہ۔۔۔ اور کیا بن چکی تھی۔
حرام راستہ چن کر اس نے حلال رشتوں کو خود پہ حرام کر لیا تھا۔ اس کی ذات اب بے معنی ہو چکی تھی۔ وہ زندہ تھی مگر جنید کی بات نے اسے سچ میں مار دیا تھا۔ کیا اس کی اولاد نے اس جلی ہوئی میت کو ہی اپنی ماں سمجھ کر دفنا دیا تھا؟ اگر ہاں۔۔۔ اگر نہیں یقینا ہاں۔ اس نے اپنے خیالات کی نفی کی۔ وہ سچ میں مر چکی تھی۔
کیا اس سے زیادہ کوئی چیز اذیت دیتی ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنی اولاد کے لیے مر چکی تھی۔
اس کے آنسو قطر قطرہ چہرے کو بھگو رہے تھے۔ سرخ و سفید رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ صالح جیسی گہری سیاہ آنکھوں کی چمک حلقوں کے باعث ماند پڑ چکی تھی۔ ابھری ہوئی سیاہ آنکھیں دھنس چکی تھیں۔ اس کا جسم اس کی حالت سے مختلف نہیں رہا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ روکھے پھیکے سے ہاتھ ۔۔۔۔ خشک جلد۔۔۔ ناخن یوں گویا شدید تراشے گئے ہوں۔ بازوؤں پہ جگہ جگہ چوٹیں۔

"صالحہ میں نے کہا تھا نا کہ تم واشنگ مشین نہیں لگاو گی۔ میں نے آپا سے بات کی تھی کہ وہ جس سے اپنے گھر مشین لگواتی ہیں وہ یہاں بھی لگا جایا کرے گی۔ تمہارے ہاتھ نرم و نازک ہی اچھے لگتے ہیں۔ میرا بس چلے تو تمہیں کوئی کام نہ کرنے دوں۔"
منصور کی روٹھی آواز پہ اس کی سسکیاں اس کمرے میں گونجیں۔

"معاف کر دو منصور۔ میں نے تمہارا بھروسہ، مان،عزت سب توڑ دیا۔ میں نے تمہیں توڑ دیا منصور۔ تمہارے نام کے ساتھ میں شاد رہی۔ تمہارے بعد میں ویران ہو گئی۔ تم جیسا انسان میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ کہاں سے لائے تھے اتنا حوصلہ؟ کیوں مجھے تھپڑ مار کر گھر نہیں بٹھایا۔ تم چاہتے تو مار مار کر کھال ادھیڑ سکتے تھے۔ مرد تھے ہر اختیار رکھتے تھے۔ مگر تم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ تم نے ایک بار بھی مجھ پہ ہاتھ نہیں اٹھایا۔ تم نے صرف ہاتھ جوڑے لیکن میں نے دھتکارا۔ تم جیسی محبت کوئی نہیں کر سکتا منصور۔ خدا سے دعا ہے کہ ایک بار۔۔۔ بس ایک بار وہ مجھے تم سے معافی مانگنے کا موقع دے دے۔ میں خود کو تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گی۔ صالحہ خود کو مٹی کر دے گی مگر تم سے معافی حاصل کرے گی۔"
اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روکے بغیر دل کی گریہ زاری کو زور و شور سے ہونے دیا۔ سالوں سے یہی تو کر رہی تھی وہ مگر سکون۔۔۔ سکون اس کو اب نصیب نہیں ہوتا تھا۔
اس نے سنا تھا کہ آنسو بہہ جائیں تو دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا دل کئی برسوں بعد بھی ہلکا نہ ہو سکا تھا۔
وہ روندی جا چکی تھی۔ وہ خود کو خود تباہ کر گئی تھی۔
اس کا جرم چھوٹا نہ تھا تو سزا کیسے چھوٹی ہو سکتی تھی۔ اس نے ہر سزا کو قبول کر لیا تھا۔ اسے بھی زندگی کے حصہ کی مانند سمجھ لیا تھا۔ اپنے وجود کا حصہ بنا لیا تھا۔ مگر کون جانتا تھا کہ جس معافی کی آس اس کو زندہ رکھے ہوئے ہے جب وہ آس ٹوٹے گی تو کیا قہر برپا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصر کی نماز کے فوری بعد جب سورج کی کرنیں مدھم پڑ رہی تھیں اور آسمان پہ ایک الوہی سی روشنی چھائی تھی وہ اپنے خاوند کے ساتھ اپنے میکے جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھیں۔
تیمور اور نوشین آپا پہلے صالح کی طرف آئے۔ یہاں سے شائستہ بھابھی اور زارا بھابھی نے ان کے ساتھ صالح کا رشتہ لے کر آیت کی طرف جانا تھا۔ صالح نے دروازہ کھولا اور دونوں کو سلام کیا۔ چلتے ہوئے وہ ٹی وی لاوئنج میں آ کر صوفوں پہ بیٹھ گئے۔ صالح اس وقت سادہ سی گول گلے والے بھوری ٹی شرٹ کے ساتھ سیاہ ٹراوزر پہنے تروتازہ دکھائی دے رہا تھا۔ برسوں بعد اس کے چہرے پہ یہ رونق دکھائی دی تھی۔ گھر میں سب صالح کو لے کر بہت خوش تھے۔ نوشین آپا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ محترم نے خود اپنا رشتہ لے کر جانے کو کہا ہے۔ اسی لیے وہ سب کی معنی خیز باتوں سے محفوظ تھا۔اس نے تو شکر ادا کیا کہ اس کو چھیڑنے والا نمونہ موجود نہیں تھا۔ وہ صوفہ کے ہتھے پہ ہاتھ جمائے پرسکون سا تیمور بھائی سے بات کر رہا تھا جب تک تینوں خواتین اپنی تیاری مکمل کر رہی تھیں۔ جواد کو آج ضروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا تھا اور شہروز کو ان معاملات کا اندازہ نہیں تھا اس لیے صرف تیمور بھائی ہی ان کے ساتھ جا رہے تھے۔
وہ مسکرا کر باتیں کر رہا تھا کہ اچانک آنے والے وجود کو دیکھ کر اس کا حیران چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ کیا اس کا سکون بس چند لمحے کے لیے ہی تھا۔ کیونکہ سامنے موجود جنید شریر اور معنی خیز مسکراہٹ سجائے اس کو دیکھ کر آنکھ کا کونا دبا گیا۔ اس نے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

"کیا ہو رہا ہے بھئی؟"
کالر والی ڈارک گرین ٹی شرٹ کے ساتھ سکن جینز پہنے، سفید جوگرز میں پاؤں مقید کیے، ہیلمٹ ہاتھ میں پکڑے وہ بہت مزے سے ان کی جانب آ رہا تھا۔ صالح کا دل چاہا اپنا سر دیوار میں دے مارے۔ یہ اب کہاں سے آ ٹپکا تھا۔

"تمہیں نہیں بتایا صالح نے کہ آج ہم اس کا رشتہ لے کر جا رہے ہیں۔"
تیمور بھائی نے اس سے مصافحہ کرتے جواب دیا۔ وہ اپنی اچھے اخلاق اور گھلنے ملنے والی خصوصیت کے باعث صالح کی تمام فیملی سے خاصا فرینک تھا۔

"بتایا تھا بھئی۔ مجھ سے پوچھے بغیر تو یہ ویسے بھی کچھ نہیں کرتا۔ کیوں صالح ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں؟"
معنی خیز مسکراہٹ۔۔۔ صالح کا دل چاہا کہ یا تو خود غائب ہو جائے یا اس کو کر دے۔

"تم ذرا میرے ساتھ کمرے میں آنا۔ مجھے کچھ دکھانا ہے تمہیں۔"
صالح نے اس کو صوفہ سے زبردستی اٹھایا ورنہ اندیشہ تھا وہ کوئی شوشہ چھوڑ دیتا۔ تیمور بھائی ہنس کر ان کی حرکتیں ملاحظہ کر رہے تھے۔

"میں نے بتایا ہے نا یہ مجھ سے پوچھے بغیر کچھ بھی نہیں کرتا۔" اپنی تعریف کرتے وہ مسکرا کر کہتے اس کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ صالح نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ مزے سے جا کر بیڈ پہ ڈھیر ہوتے بیڈ کراون سے ٹیک لگا گیا۔

"تمہیں کس نے دعوت دی؟"
ابرو اچکا کر پوچھا۔ کیونکہ عین اس وقت اس کی یہاں موجودگی یقینا اتفاق نہیں تھی۔ ابھی کل ہی تو ان کی ملاقات ہوئی تھی۔

"کیا مجھے دعوت کی ضرورت ہے؟"
سوال پہ سوال۔

"تم گھر والوں کے سامنے کوئی فضول بات نہیں کرو گے۔"
رائٹنگ ٹیبل کی کرسی کو اس کی جانب موڑ کر بیٹھتے اس نے وارننگ دی۔

"میں اور فضول بات؟"
شاک کی کیفیت میں خود کی جانب اشارہ کر کے بولا۔ گویا اسے اپنی سماعت پہ یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ دی ڈیسنٹ اور سنجیدہ مزاج انسان اور فضول بات۔۔۔ توبہ توبہ

"ایک بات تو بتاو۔ یہ آپا کو اچانک ہی تمہارا رشتہ لے کر جانے کا خیال کہاں سے آ گیا؟"
اس کی بات پہ صالح نے سکون کا سانس بھرا۔ شکر تھا کہ اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کا پیارا دوست خود اپنا رشتہ لے کر جانے کا کہہ رہا تھا۔

"آپا نے کہا تھا کہ شادی کر لو۔ میں نے ان کی بات مان لی۔"
نہایت معصومیت سے اپنے سر سے مصیبت ٹالنی چاہئے۔ وہ اس کو سچ بتا کر اپنے گلے مصیبت نہیں ڈال سکتا تھا۔

"اتنے تم رہتے نہیں فرمانبردار۔ پورے میسنے ہو تم۔ مجھے پکا پتا ہے کہ اس رشتے کے پیچھے تمہارا ہی ہاتھ ہے۔ اور کہیں یہ وہ والی لڑکی ہی تو نہیں؟ ارے جنید کاظمی تمہارا دماغ تو سست ہوتا جا رہا ہے۔ تمہیں اس سست انسان سے اب تھوڑی دوری برتنی چاہئے۔"
مشکوک نگاہوں سے اس کو گھورتے، تکا لگا کر اس پہ پکا ہوتے، آخر میں خود کو مشورے سے نوازا۔

"تمہاری مہربانی ہو گی کہ تم تھوڑا دور ہی رہو۔"
صالح سست انسان کا مطلب بخوبی جان چکا تھا۔

"اب اتنے بھی سست نہیں ہو۔ بس تم سے ایک سال پہلے ہی کروائی ہے میں نے شادی۔ اب تمہیں اس بات پہ چھوڑ تو نہیں نا سکتا۔ اب میرے جیسا مخلص دوست بھی تو ہر کسی کو نہیں ملتا۔"
تکیے کو ہاتھوں میں دبائے وہ بڑے سکون سے بولا۔ گویا اس کو نہ چھوڑ کر اس پہ احسان عظیم کیا ہو۔ دل میں صالح منصور نے اعتراف کیا کہ سچ میں اسے جنید کاظمی سے زیادہ مخلص دوست نہیں مل سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کے ہر اچھے برے وقت میں اس کے ساتھ رہا تھا۔ وہ مزید کچھ کہتا کہ دروازہ ناک ہوا۔ نوشین آپا اس کی بجائے جنید کو بلا رہی تھیں۔

"اس کو آپ نے بلایا تھا آپا؟"
وہ شاکنگ سا بولا۔

"ہاں نا۔ مٹھائی کہاں ہے جنید؟"
وہ عجلت بھرے انداز میں جنید سے مخاطب تھیں۔

"بس آپا میں آرڈر دے کر آیا تھا۔ ابھی لایا دس منٹ میں۔"
وہ فورا کمرے سے باہر نکلا اور ہیوی بائیک کی چابی ہاتھ میں گھماتے سیڑھیاں اترنے لگا۔ صالح نے گہری آہ بھری۔ یہ انسان دھمکی کی زبان بھی نہیں سمجھتا تھا۔ اسی لیے تو ابھی تک دھڑلے سے ہیوی بائیک چلا رہا تھا۔

"آپا مٹھائی یہ کیوں لے کر آ رہا ہے؟"
اسے تو معاملہ ہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

"تمہیں یاد نہیں کہ اپنی شادی کی خوشی میں اس نے جو مٹھائی بھجوائی تھی۔ اس کا تو ذائقہ ہی منہ سے نہیں اتر رہا تھا۔ بس مجھے اچانک یاد آیا کہ اس کو کال کر کے پوچھتی ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ خود لا دے گا۔ میں نے کہا کہ تمہاری طرف ہی لے آئے۔"

"مطلب اس کو نہیں پتا تھا کہ آپ میرا رشتہ لے کر جانے والی ہیں۔ اس لیے مٹھائی چاہئے۔"
اس نے گویا حساب کتاب لگایا۔

"ہاں نا اس کو تو نہیں بتایا۔ مجھے لگا اسے پتا ہو گا۔ اس نے بھی پوچھا نہیں تھا۔"
وہ کہہ کر نیچے چلی گئیں۔

بھلا ہو تیمور بھائی کا جو اس کے سر مصیبت ڈال چکے تھے۔ صالح کم از کم اسے نکاح سے پہلے بتانے کا ارداہ نہیں رکھتا تھا۔ مگر جس چیز کا ڈر تھا وہ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔
اب یقینا وہ اپنی موبائل گیم خراب کرنے پہ اسے کڑی سزا دینے والا تھا۔ یا شاید ہیوی بائیک والی دھمکی کا بدلہ لینے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں بےچینی سے ٹہلتی آیت مصطفٰی ابھی تک ان کے نہ آنے کی دعاؤں میں مشغول تھی۔ سکائی بلو کلر کی نفیس شرٹ جو گھٹنوں تک تھی اس کے ساتھ سفید کیپری پہنے اور سفید اور سکائی بلو کلر کا میچنگ دوپٹہ سر پہ لیے وہ ہلکے سے میک اپ کے ساتھ لبوں کو کاٹتی ایک ہی جگہ پہ چکر لگاتی جا رہی تھی۔ اپنی ماما کے کہنے پہ وہ تیار ہوئی تھی ورنہ اس کا بس چلتا تو کام کرنے والی ماسی والے حلیے میں ان کے سامنے جاتی۔ اس نے سوچا کہ ارحا سے بات کرے مگر پھر فون واپس رکھ دیا۔ ارحا یقینا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ گھڑی کی سوئیوں کی ٹک ٹک اس کو چبھ رہی تھی۔ وقت زیادہ ہو چکا تھا۔ اس کا دل تھوڑا پرسکون ہو رہا تھا۔

"مجھے لگتا میری دعا قبول ہونے والی ہے۔"
وہ اچانک جوش میں بولی پھر اردگرد نگاہ دوڑائی تو شکر کا سانس لیا۔ کیونکہ کمرے میں صرف وہی تھی۔ عنایہ مہمانوں کی آمد کا سن کر ان کے آنے کے انتظار میں نیچے ہی تھی۔ مزید آدھا گھنٹہ گزرا تو وہ شیشے میں خود کو دیکھ کر مسکرائی۔ اس کا دل نوید دے رہا تھا کہ دعا قبول ہو چکی ہے۔ اسی وقت گاڑی کی بیل کی آواز پہ اس کی ساری ہنسی ہوا ہوئی۔ دل مختلف اندیشوں کے تحت پریشان ہوا۔ نیچے سے ملنے ملانے کی آوازیں آنے لگیں۔ مگر وہ بیڈ پہ بیٹھ کر بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی۔ اس کا دل یک دم ہی اچاٹ ہو چکا تھا۔ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آنے کو بے تاب ہو رہے تھے جنہیں وہ ضبط کر رہی تھی۔ مگرضبط کے باوجود ایک آنسو بائیں آنکھ سے نکل کر گال پہ پھسلا۔ خود پہ کنٹرول کرتے چہرہ لال ہو رہا تھا۔اس کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو اس کا دل چاہا کہ وہ یہاں سے غائب ہو جائے۔ مگر آنسو صاف کرتے آئینے کے سامنے آ کر زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے وہ بوجھل قدموں سے دروازے کی جانب بڑھی۔ دروازہ کھولا تو نوشین آپا کو دیکھ کر اسے لگا اسے دھوکہ ہوا ہے۔ پلکوں کی گہری جھالر کو بار بار جھپکتے ہوئے، سرخ ناک اور گلابی گالوں والی وہ گڑیا بلا کی معصوم دکھی۔ نوشین آپا نے اس کا ماتھا چوما۔ عنایہ نیچے بھاگی کیونکہ اسے شائستہ بھابھی کا بیٹا حاشر بہت پسند آیا تھا۔ اسے اس کے ساتھ کھیلنا تھا۔

"آ۔۔۔ آپ"
بمشکل ہکلاتے ہوئے بولا۔

"میرے صالح کے ساتھ صرف تم ہی جچو گی۔"
مسکرا کر کہتے ہوئے وہ اسے حسین زندگی کی نوید سنائی گئیں۔
صالح۔۔۔ صالح منصور!
کیا اس نے کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کر دیے تھے؟
کیا اس کی سماعت اس کی پسندیدہ باتوں کو اسے سنوا رہی تھی؟
کیا خواب ، حقیقت کا روپ دھارتی ہے؟
کیا چاہنے والے کی جانب سے یہ پیغام دل کو معطر نہیں کرتا؟
اس کا دل چاہا وہ رو دے۔ سجدہ شکر میں چلی جائے۔ دنیا کو بتائے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس کے دل کی دھڑکن منتشر ہوئی۔ لمحوں میں اسے اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا۔ چہرہ پل بھر میں نکھرا نکھرا ہو گیا۔ وہ اس کو دیکھ لیتا تو کہتا۔

"کیوں ہو اتنی پیاری کہ دل چاہتا ہے نثار ہو جاؤں تم پہ۔"

اس کے حیران کن تاثرات اور پھر شرم سے جھکی نظروں کو دیکھ نوشین آپا کو ڈھیروں تسلی ملی۔ کوئی بھی اس کو دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ وہ لڑکی یوں دکھ رہی تھی گویا خواب کو حقیقت کا روپ دھارے دیکھ شخص عجیب سی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔

"میں تمہیں نیچے لے کر جانے کے لیے آئی تھی۔ چلو"
انہوں نے اسے مخاطب کیا جو آنسوؤں کو روک رہی تھی۔

"میں پانچ منٹ تک آتی ہوں آپا۔"
نوشین آپا اس کے کندھے پہ تھپکی دیتے چلی گئیں۔

"شکر اللہ "
دروازہ بند کرتے وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ آنسو قطار در قطار آنکھوں سے بہہ جانے دیے۔ یہ وہ آنسو تھے جن کا بہنا اسے مزید خوشنما بنا رہا تھا۔ چند لمحے پہلے تک اس کا دل بند ہو رہا تھا اور اب۔۔۔ اس نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھا تو ان دھڑکنوں کو اس کا نام لیتے محسوس کیا۔

"جانتے ہیں صالح یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟"
وہ اس کی شبیہہ سے مخاطب ہوئی۔

"اگر آج آپ کی جگہ کسی اور کی جانب سے رشتہ آیا ہوتا تو یہ آنسو ان کے جانے کے بعد بہتے۔ مگر اب پہلے ہی بہہ رہے ہیں۔ نہیں جانتی یہ نوشین آپا کے آنے سے پہلی کی تکلیف پہ ہیں یا دوسری صورت حال کو سوچ کر یا پھر شاید شکر کے۔"
بڑی بڑی آنکھوں میں چمکتے آنسو چہرے پہ بکھر کر اس کے خوبصورت رخسار کو تر کر گئے۔ آنکھیں بند کیں تو اس کا چہرہ سامنے نظر آ گیا۔ وہ بند آنکھوں سے کھل کر مسکرائی۔ چہرے پہ موجود گڑھے نے نمایاں ہو کر اس کو پر رونق بنا دیا۔ وہ تیزی سے کھڑی ہوئی۔ آئینے کے آگے جا کر دیکھا تو چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ایک پل کو اس نے شرم سے نظریں جھکا لیں۔ پہلے جو چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا اب شرمگیں مسکراہٹ سے لال ہو رہا تھا۔ وہ فورا واش روم گئی۔ چہرہ دھویا اور مسکراتے ہوئے ہلکا سا میک اپ کیا۔ اس وقت وہ انتہا کی دلکش دکھ رہی تھی۔ خود پہ آخری نگاہ ڈالی تو اس کی ماما دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں۔اس کو دیکھ کر دل میں اس کے اچھے نصیب کی دعا کی۔ سر پہ پیار دیتے ہوئے وہ اس کو لیے نیچے آئیں۔ فطری جھجھک کے باعث وہ نظریں جھکائے سب سے ملی۔ شائستہ تو اس کو دیکھ اس کے صدقے واری جا رہی تھی۔

"تم تو آپا کے کہے مطابق بہت پیاری ہو۔ معاذ کی منگنی پہ دیکھا تھا مگر آج نظر بھر کر دیکھا تو یوں لگ رہا ہے کہ تم تو صالح کے لیے ہی ہو۔ "
اس کے پاس بیٹھی شائستہ نے اس کے کان میں تعریف کی۔ جس پہ وہ دھیمی مسکان سے جواب دیتے ہوئے جھینپ گئی۔

"آپ کافی تاخیر سے پہنچے۔ خیریت تو تھی؟"
مصطفٰی صاحب نے تیمور سے پوچھا۔

"وہ دراصل ہم گھر سے وقت پہ ہی نکلے تھے مگر تھوڑے فاصلے پہ ہی گاڑی رک گئی۔ میں نے چیک کیا تو ٹائر پنکچر تھا۔ پھر صالح کو کال کی تو وہ اپنی گاڑی دے کر گیا۔ اب میری گاڑی اس کے پاس ہے۔ پنکچر ٹھیک کروا کر وہ گھر واپس جائے گا۔"
تیمور بول رہا تھا اور آیت آنکھیں بند کیے، لب دانتوں میں دبائے خود کو کوس رہی تھی۔

"مجھے تھوڑی پتا تھا۔"
دل میں خود کو تسلی دی۔

"افف صالح آپ کو ٹینشن میں ڈال دیا۔"

"اب اتنا تو بنتا ہے نا۔ میں بھی تو کل سے پریشان ہوں تھوڑا سا آپ بھی ہو جائیں۔"
خود کو دلاسہ دیتے وہ پرسکون ہوئی۔

"انکل ہم رشتہ پکا سمجھیں؟"
شائستہ نے مصطفٰی صاحب سے پوچھا۔ زارا سے تو اس کی کوئی خاص بنتی نہیں تھی اس لیے اسے بس جلدی سے آیت کو گھر لانا تھا۔

"حمدانی اور صدیقی دونوں نے بچے کی گارنٹی دی ہے۔ ہم نے بھی اسے شادی میں دیکھا تھا ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مگر حتمی فیصلہ ہماری بیٹی ہی کرے گی۔ بچیوں کو خودمختار کرنے کا مطلب صرف اتنا نہیں ہے کہ انہیں کیرئیر میں آزادی دے دو۔ مگر جہاں اس کی پوری زندگی کا فیصلہ ہو وہاں ان پہ زور زبردستی کرو۔ اس لیے میں اپنی بیٹی کے سر پہ کبھی اپنا فیصلہ مسلط نہیں کروں گا۔"
مصطفٰی صاحب نے کہا تو آیت نے آنکھوں میں نمی لیے اپنے بابا کو دیکھا جنہوں نے ہمیشہ اسے سپورٹ کیا تھا۔ وہ خوش قسمت تھی ۔۔۔۔ بلا کی خوش قسمت تھی جس کو اس کے ہر فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑے ہونے والے ماں باپ کا ساتھ نوازا گیا تھا۔ اس نے کبھی بے جا فرمائشیں نہیں کی تھیں۔ لیکن اس کے والدین نے اس کی ہر ممکن ضرورت اور خواہش کا خیال رکھا تھا۔

"بیٹا اگر آپ کو سوچنے کا وقت چاہئے تو لو۔ لیکن اگر آپ کو کوئی اعتراض نہیں تو رضا مندی دے دو۔"
تیمور کے کہنے پہ اس نے اپنے بابا کی طرف دیکھا جنہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔ اس نے بھی مثبت جواب میں سر ہلا دیا۔ وہاں موجود سب کے چہروں پہ رونق بکھر گئی۔ نوشین آپا نے اس کا منہ میٹھا کروایا۔ اب وہ کیسے بتاتی کہ صالح کا نام اپنے نام کے ساتھ جڑنے کا احساس اس کو ویسے ہی میٹھا میٹھا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے لیے اسے کسی شیریں چیز کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ چلے گئے تو آیت اپنے ماما بابا کے پاس بیٹھ گئی۔

"ماما ! بابا!"

"جی بیٹا"

"آپ نے ہمیشہ مجھے آزادی دی۔ مجھ پہ بھروسہ رکھا۔ کبھی بھی بے اعتباری نہیں دکھائی۔ میں نے ہمیشہ سنا تھا کہ لاکھ کوئی والدین آپ کو آزادی دے دیں مگر شادی کے معاملے میں بیٹی کی سنوائی نہیں ہوتی۔ مگر آپ نے ان سب کو غلط ثابت کر دیا۔ مائیں، بیٹیوں کو ہمیشہ کہتی رہتی ہیں کہ یہ کرو یہ نہیں کرو۔ اگلے گھر جا کر مجھے بدنام کرواو گی۔ لیکن آپ نے کبھی مجھے یہ سب نہیں کہا۔ آپ نے مجھے میری زندگی جینے دی۔ کبھی سسرال کا نام لے کر مجھے ذہنی ٹارچر نہیں دیا۔ لوگوں کی باتوں کی پروا کیے بغیر مجھے جاب کی اجازت دی۔ آپ دونوں بہترین والدین ثابت ہوئے۔"
دونوں کے پاس بیٹھی ان کا ہاتھ تھامے وہ نم آنکھوں سے بول رہی تھی۔ اس کی باتیں اس کے والدین کو تفاخر کا احساس کروا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی بانہیں پھیلائیں تو وہ اس میں سما گئی۔

کتنی عجیب تھی نا دنیا۔۔۔ کتنے مختلف تھے نا لوگ
ایک جانب وہ تھا جس کی ماں کی بے وفائی اسے پوری عمر کا روگ دے گئی تو دوسری جانب وہ تھی جس کے والدین اس کے آئیڈیل بنے۔
مختلف حالات کے دھارے میں چلنے والے دو مختلف لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سے نوازا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفٰی صاحب اور شگفتہ بیگم ، صدیقی صاحب کے ہمراہ صالح کی جانب جا چکے تھے۔ ان کو صالح بہت پسند آیا تھا۔ سنجیدہ مزاج، خوبرو، مضبوط جسامت کا مالک دھیمی آواز میں بولتا ہوا وہ ان کے دل کو بہت بھایا۔ نکاح کی تاریخ اگلے ماہ قرار پا چکی تھی۔ معاذ نے اس کو دل سے مبارک باد دی تھی۔ جانے کیوں لیکن اس روز اس کی منگنی والے دن ان دونوں کا ایک دوسرے کو یوں دیکھنا ہی اسے یہ احساس دلا رہا تھا کہ وہ دونوں صرف ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں بلکہ پسند بھی کرتے ہیں۔ اسے اب قسمت کے فیصلوں کی سمجھ آئی تھی۔ اور وہ قسمت کے فیصلے پہ من و عن راضی تھا۔ دونوں گھروں میں تیاریاں شروع ہو چکی تھی۔ آیت نے سوچا کیوں نا ارحا کو گھر بلا کر بتائے۔ اس نیت سے اس نے اس کو کال کی۔

"ارحا تم تو بیٹے کے بعد مجھے بھول ہی گئی ہو۔"
فون پہ اس کو خوب لتاڑا۔

"یار میرا پہلا بچہ ہے۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ بچے اتنا تنگ کرتے ہیں۔ نہ کھانے کا ہوش ہوتا ہے مجھے نا پینے کا۔ مگر پکا کل تمہاری طرف آوں گی۔آج نوید سے کہا تھا میں نے کہ کل ویک اینڈ ہے تو مجھے تمہاری طرف چھوڑ جائے۔"
"واو یہ تو کمال تو گیا۔ چلو پھر کل ہی مل کر ساری باتیں ہوں گی۔ کل تمہیں ایک دھماکہ دار خبر سناؤں گی۔"
نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے وہ اپنی بیسٹی سے بولی۔

"کیا خبر ہے جلدی بتاو۔"
ثمامہ کو سلاتے ہوئے وہ پرتجسس بولی۔

"نہیں جی کل ہی بتاوں گی۔"
وہ بھی بھرم سے بولی۔

"بڑی کوئی بدتمیز ہو تم۔ سسپنس ڈالنا ضروری تھا کیا۔"
وہ اس پہ برہم ہو رہی تھی۔

"ہاں تو تم وقت نکال کر مجھ سے رابطہ رکھا کرو ورنہ میں یوں ہی کروں گی۔ اب کوئی بات نہیں۔ تم ثمامہ کو سنبھالو۔ اللہ حافظ"
وہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئی مگر آیت فون کاٹ چکی تھی۔

اگلے روز چونکہ آیت گھر ہی تھی تو وہ صبح گیارہ بجے ہی اس کے گھر آ چکی تھی۔ شگفتہ بیگم، ثمامہ کو تھامے پیار کر رہی تھیں اور عنایہ ان کے پاس بیٹھے اس چھوٹے سے بچے کو نہار رہی تھی۔ اس کے پھولے پھولے گالوں کو پیار کرتے ہوئے اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔

"ماما یہ بےبی کتنا نرم ہے۔اور اسکا فیس کتنا گول مول سا ہے۔"
وہ آنکھوں میں ڈھیر پیار لیے کبھی اس کے گال چھوتی تو کبھی اس کے ہاتھ۔

"آپ بھی ایسی ہی تھی۔"
شگفتہ بیگم نے اس کے گالوں کو کھینچتے جواب دیا۔ جس پہ وہ شرما گئی۔

آیت کے کمرے میں موجود ارحا سب جاننے کے بعد خوشی سے نہال ہو رہی تھی۔

"آیت ۔۔۔۔آیت میں بہت خوش ہوں۔"
اس کو گول گول گھماتے وہ اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔

"جلدی سے تصویر دکھاو۔ کون ہیں وہ جن پہ میری آیت دل ہار بیٹھی۔" معنی خیزی سے بولتے ہوئے وہ پر اشتیاق لہجے میں بولی۔
"میری پاس تصویر نہیں ہے۔"
صاف گوئی سے بولی۔

"مار کھاو گی مجھ سے اگر یہ بولا۔ جلدی سے دکھاو دی گریٹ صالح منصور"

"سچ میں تصویر نہیں ہے۔"
نہایت معصومیت سے بولی۔ جس پہ ارحا نے اس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

"ویڈیو ہے۔"
اس کی اگلی بات پہ ارحا کا منہ کھلا ہی رہ گیا۔

"تم بڑا ایڈوانس چل رہی ہو۔"
وہ اسکو چھیڑتے ہوئے بولی۔

"یار ایک بار بھی نہیں دیکھی۔ بس پتا نہیں کیسے بنا لی لیکن کبھی دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔"
وہ اس کا چہرہ آنکھوں میں سموئے بولی۔ ارحا کے کہنے پہ اس نے صالح کی ویڈیو اس کو دکھائی لیکن خود پھر بھی نہیں دیکھی۔

"صالح بھائی تو بہت ہینڈسم ہیں۔ تم دونوں کا کپل بے حد حسین لگے گا۔ خوش رہو۔ "
وہ ارحا کی تعریف پہ جھینپ گئی اس لیے فورا موضوع تبدیل کیا۔

"اچھا اب اٹھو جلدی۔ ہمیں نکاح کی شاپنگ کرنی ہے۔ نوید بھائی کو فون کر کے بتا دو کہ تمہیں شام میں لینے آئیں اور کھانا ہماری طرف سے ہی کھائیں۔ اور ثمامہ کو ماما سنبھال لیں گی۔"
وہ اس کو کھڑا کر چکی تھی۔ ارحا نے نوید کو انفارم کر دیا تھا۔
وہ دونوں شاپنگ کے لیے مال روانہ ہوئیں۔ وہاں سے سب گھر والوں کے لیے شاپنگ کی اور اپنے لیے ایک نہایت منفرد نکاح کا جوڑا پسند کیا۔

"حور لگو گی اس کو پہن کر۔"
ارحا اس جوڑے کو اس کے ساتھ لگاتے بولی۔

"تھوڑا مکھن لگایا کرو۔"
آنکھیں چھوٹی کر کے بولی۔

"عجیب ہو بھئی۔ لڑکیاں تعریف پہ شرماتی ہیں اور تمہیں مکھن لگ رہا ہے۔"

"تو کیا شرماوں؟"
جوڑے کو کاونٹر پہ رکھتے وہ اس کی جانب دیکھ کر بولی۔

"ہم سے کہاں شرماو گی۔ اب تو صرف ان کے سامنے ہی شرماو گی۔"
اس نے بھی حساب برابر کیا۔

"ہاں بالکل ایسا ہی کروں گی۔"
وہ بھی ڈھٹائی سے بولی۔

"یا اللہ! آج کل کی لڑکیاں کتنی بے شرم ہو گئی ہیں۔"
ارحا دہائیاں دیتے ہوئے بولی۔

"شرمانے میں کونسی بے شرمی ہے۔"

"پوائنٹ "
ایمپریس ہو کر بولی۔
اسی نوک جھونک اور چھیڑ چھاڑ میں انہوں نے شاپنگ کی۔ ارحا نے جن جگہوں سے اپنے لیے شاپنگ کی تھی وہ اسے سیدھا انہی جگہوں پہ لے کر گئی جس کے باعث شام تک شاپنگ مکمل ہو گئی۔ ورنہ ایک دن میں نکاح کی شاپنگ خاصی مشکل تھی۔ شام کو وہ تھک ہار کر گھر واپس آئیں۔ نوید ، ارحا کو لینے آیا تو ان دونوں نے ان کی فیملی کے ساتھ ہی رات کا کھانا کھایا۔ ساتھ ہی مصطفٰی صاحب نے نوید سے نکاح کی تقریب کے حوالے سے کچھ انتظامات کے بارے میں اطلاع لی۔ یہ ان کے گھر کی پہلی شادی تھی لیکن وہ کوئی کمی نہیں چاہتے تھے۔
خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ پھر ارحا اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ اپنے گھر روانہ ہو گئی۔
اپنی شاپنگ کو بیڈ پہ ڈھیر کیے وہ اپنی ماما کو ساری شاپنگ دکھانے لگی۔ اس کا نکاح کا جوڑا انہیں بے حد نفیس لگا تھا۔

"میری بیٹی کی چوائس بہت خوب ہے۔"
انہوں نے دل سے اقرار کیا۔

"یہ تو ہے۔"
صالح کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
رات کو جب سب سو چکے تھے۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھتے ہوئے کسی اور جانب ہی کھوئی ہوئی تھی۔
تقدیر نے اس پہ بے شمار نعمتیں نچھاور کی تھیں اور وہ شاکر لوگوں میں شامل تھی۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی قسمت پہ رشک کرتی کہ جسے چاہا وہ اس کا نصیب بننے والا تھا۔
چاند کی روشنی نے اس کے صبیح چہرے پہ روشنی کی تو اس کا چاند سا چہرہ جھلملا اٹھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
میری دھمکی کو سیریس لے لیں😁 Rms Jani ظاہر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کیسے وفا پہ یقیں کر لیںقسط نمبر 17۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جنید کے کمرے سے نکل کر پارکن...
01/01/2024

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیسے وفا پہ یقیں کر لیں
قسط نمبر 17
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جنید کے کمرے سے نکل کر پارکنگ کی جانب گیا۔ اپنی گاڑی میں بیٹھنے سے قبل اس کی آنکھوں نے ایک آشنا سا چہرہ دیکھا۔ محض چند سیکنڈ۔۔۔ صرف چند سیکنڈ ہی کافی تھے اس انسان کو پہچاننے میں جو اس کی زندگی کا ایک سیاہ حصہ تھا۔
"تحسین سعید"
یہ نام اس کے لبوں سے ادا ہوا تو دماغ میں آگ جل اٹھی۔ ایک ایسی آگ جو راکھ کر دینے والی تھی۔ کاش کہ وہ اپنے باپ جیسا نہ ہوتا۔۔ کاش کہ وہ اس شخص کو جان سے مار سکتا۔ کاش کہ صالح منصور اپنے نام کی طرح نہ ہوتا۔ اس کا سانس معمول سے بہت تیز ہو چکا تھا۔ دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب ہوئیں۔ ماضی کے مناظر نے آنکھ کی پتلیوں پہ اپنی چھاپ چھوڑنا شروع کر دی۔

"تحسین بھائی آئیں نا۔ "
اس کی ماں کی آواز۔

"بابا یہ کون ہیں؟"
جواد کا ابھرتا سوال۔

"یہ میرا بچپن کا دوست ہے بیٹا۔"
اس انسان کا اس کے سامنے پہلا تعارف۔

"بھائی اس کی کیا ضرورت تھی؟"
صالحہ کی بچوں کے گفٹس دیکھ کر پرتکلف آواز۔

"میرے بچپن کا دوست ہے۔ اس کے بچے میرے بچے"
معنی خیزی سے بولتا ہوا تحسین سعید۔

"بابا مجھے یہ والے انکل نہیں پسند"
صالح کی اپنے باپ کے کان میں کی جانے والی سرگوشی۔

"بابا یہ والے انکل ہر ہفتے ہمارے گھر کیوں آتے ہیں؟"
صالح کے ذہن پہ بننے والا اس انسان کا برا امیج۔

"بابا گھر پہ نہیں ہیں انکل۔ آپ بعد میں آئیے گا۔"
دروازے پہ موجود صالح کا اس کو دیکھ کر اندر آنے سے انکار کرنا۔

"ارے تحسین بھائی آئیں نا۔ بچہ ہے چھوٹا۔ ہم نے ہی سمجھایا تھا کہ بابا کی غیر موجودگی میں کسی اجنبی کو آنے نہیں دینا۔ وہ شاید آپ کو پہچان نہیں پایا۔"
مروت دکھاتی صالحہ۔

"صالحہ بھابھی ایک کپ چائے بنا دیں گی پلیز۔ اس وقت تک منصور بھی آ جائے گا۔"
لاوئنج میں بیٹھے تحسین کی آواز۔ اس کے بابا، بڑے بہن اور بھائی کی غیر موجودگی۔۔۔
چائے کا کپ تھامتے ہوئے اس کی ماں کے ہاتھ کو چھونا۔ اس کی ماں کا ہڑبڑانا۔ تحسین کا معافی مانگنا۔ صالحہ کا فورا کمرے میں چلے جانا۔ کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں تھا اس سے۔

"کمال ہے۔ تحسین کہہ رہا تھا آج چکر لگائے گا مگر آیا ہی نہیں۔ اب فون بھی نہیں اٹھا رہا۔"
اس کے بابا کی بات پہ اس کو ہوم ورک کرواتی صالحہ کا ہاتھ ایک دم رک جانا۔

"بابا وہ انکل"
اس کا جواب دینے کی غرض سے الفاظ ادا کرنا۔

"صالح اپنا ہوم ورک کرو جلدی شاباش۔ پھر سونے کا ٹائم ہو رہا ہے۔"
اس کی ماں کا اس کو بتانے سے روک دینا۔

اس کے بابا کی غیر موجودگی میں تحسین کا اس گھر میں آنے کا سلسلہ شروع ہو جانا۔ اس کی ماما کا اس کے بابا کو انجان رکھنا۔ اس کا ننھا ذہن ان باتوں کو صحیح سے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ مگر اس کو کچھ غلط ہونے کا احساس دلاتا تھا۔ بچوں کو معصوم اور ناسمجھ سمجھنے والے جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے ذہنوں پہ بننے والے نقش تا عمر ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ محبت و نفرت کے تمام جذبے بھی عمر کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ جیسے صالح منصور کا ذہن ہر منظر کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرتا جا رہا تھا۔
تحسین کا آہستہ آہستہ اس کی ماما کے ساتھ فرینک ہونا۔ دونوں کی بےتکلفی بڑھنا سب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

"ماما ، بابا کے دوست آپ سے کیوں ملتے ہیں۔ وہ بابا کے دوست ہیں نا تو ان سے ملا کریں۔ میرے دوست سے میں ہی ملتا ہوں نا۔ جنید سے صرف میں ہی بات کرتا ہوں ماما۔ نوشین آیا اور جواد بھائی تو نہیں کرتے۔ وہ مجھ سے ملنے آتا ہے تو یہ والے انکل بھی بابا کی موجودگی میں آیا کریں۔"
اسے اپنی ماما کا بابا کے علاوہ کسی انجان شخص سے بےتکلف ہونا اچھا نہیں لگا تھا۔ اس معصوم کا ذہن اس بےتکلفی کے پیچھے چھپی بے وفائی سے یکسر بے خبر تھا۔

"وہ مہمان ہیں بیٹا۔ اور مہمانوں کے ساتھ تو اچھا رویہ رکھتے ہیں نا۔"
وہ اپنی ماں کو کہنا چاہتا تھا کہ اسے اس مہمان کا ان کے گھر آنا نہیں پسند مگر وہ خاموش ہو گیا۔ نوشین اور جواد اس ماہ کے آخر میں گھر آئے ہوئے تھے۔

"کیسے ہو صالح۔ ماما بابا کو تنگ تو نہیں کرتے۔"
نوشین اپنے لاڈلے بھائی کا ہاتھ تھامے اس سے پوچھ رہی تھی۔

"آپا میں تو تنگ نہیں کرتا۔ شہروز تنگ کرتا ہے۔"
وہ نروٹھے پن سے صفائی دے رہا تھا۔

یہ دو دن بہت اچھے گزرے تھے۔ ان کی فیملی پھر سے مکمل ہوئی تھی۔ کوئی تحسین سعید ان کے گھر نہیں آیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ مگر یہ خوشی دائمی نہیں تھی۔ دو دن بعد نوشین اور جواد واپس چلے گئے تھے اور زندگی دوبارہ اسی روٹین پہ آ چکی تھی۔ جس وقت وہ سکول ہوتا تھا اس وقت اس کے بابا کالج ہوتے تھے۔ اس کو ٹیوشن صالحہ ہی دیتی تھی اور اس دوران اس کے بابا اکیڈمی پڑھانے جاتے تھے۔ وہ اپنی فیملی کو اچھی زندگی دینے کے لیے پوری ہمت و کوشش کا مظاہرہ کیے ہوئے تھے۔ اس کی اسی محنت سے فائدہ اٹھا کر تحسین سعید نے اس کے گھر پہ وار کیا تھا۔ وہ توڑنا چاہتا تھا منصور کو اور وہ سچ میں توڑ چکا تھا۔
ماضی کے دھندلکے سے نکل کر وہ حال میں پہنچا تو تحسین سعید وہاں نہیں تھا۔ جانے کتنی ہی دیر وہ وہاں کھڑا رہا تھا۔ آنکھوں کو انگلیوں سے مسلتے وہ شدید اضطراب کا شکار ہوا۔ جنید کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو چکا تھا۔ صالح کو وہاں کھڑے دیکھا تو مذاق کی نیت سے اس کے قریب آیا۔ اس نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پہ مکہ جڑا۔ جب صالح نے آنکھیں کھولیں تو ان آنکھوں میں موجود سرخی اور کرب کی انتہا دیکھ اس کی ساری ہنسی دم توڑ گئی۔

"چلو میرے ساتھ"
اس وقت جنید کاظمی اس کا ڈاکٹر بن چکا تھا جو جانتا تھا کہ اس کا پیشنٹ اس وقت کسی اذیت ناک ذہنی کیفیت سے دوچار ہے۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے واپس ہسپتال کے اپنے کمرے میں لے کر آیا۔ وہ اس کے ساتھ کھینچتا چلا آیا۔ جنید نے اسے کرسی پہ بیٹھنے کو کہا تو وہ بیٹھ گیا۔ پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھا تو اس نے پانی نہیں پیا۔

"صالح پانی پیو۔"
وہ اس کے پاس دوزانو ہو کر بیٹھا اس کا دوست بن گیا۔

"کیا ہوا ہے؟ تم بالکل ٹھیک تھے۔ کیا کسی ایسے انسان کو دیکھا جسے نہیں دیکھنا چاہئے تھا؟"
وہ ڈاکٹر اور دوست کے فرائض ایک ساتھ نبھانا بخوبی جانتا تھا۔ صالح نے اثبات میں سر ہلایا۔

"کیا آنٹی؟"
اس نے محتاط ہو کر پوچھا۔ جس پہ صالح نے نفی میں سر ہلایا۔

"تحسین سعید؟"
شاید وہ جانتا تھا کہ صالح کی یہ کیفیت ان دو میں سے ہی کسی انسان کو دیکھ کر ہو سکتی تھی۔ صالح نے اثبات میں سر ہلایا۔ جنید کا دل چاہا کہ کہے ایک بار مجھے بتا دے کہ وہ شخص کہاں ہے اس کا انتظام تو میں خود ہی کر لوں گا۔ مگر وہ ایک ماہر نفسیات تھا جسے تحمل سے کام لینا تھا۔ اپنے اندر اٹھتے اشتعال کو دباتا وہ سپاٹ چہرہ لیے اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا۔

"تم جب تک اپنے خوف کا سامنا نہیں کرو گے تم ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ تمہیں اس انسان کا سامنا کرنا چاہئے تھا۔"

"میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ مجھے اس کو دیکھ کر خود سے خوف محسوس ہوا کہ کہیں میں اپنے بابا کی تربیت کو ملیامیٹ نہ کر دوں۔"
وہ بہت ضبط سے بولا۔

"اگر آنٹی تمہارے سامنے آ جائیں تو تمہارا کیا ردعمل ہو گا؟"
اس کے سوال پہ صالح منصور کا سانس گھٹنے لگا۔

"میں نہیں جانتا۔"
صاف گوئی سے کہا۔

"کیوں نہیں جانتے تم۔ تمہیں سوچنا ہے صالح کہ اگر آنٹی کا تم سے سامنا ہو جائے تو تم کیا کرو گے؟ اگر وہ شخص پاکستان میں موجود ہے تو ہو سکتا ہے کہ تمہاری ماما۔۔۔"

"نہیں ہیں وہ میری کچھ"
وہ اس کی بات ٹوکتے ہوئے تلخ لہجے میں بولا۔

"تم حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے۔"

"وہی تو کر رہا ہوں۔ حقیقت کو ہی تو نہیں بھلا رہا۔ یا شاید حقیقت ہی تو نہیں بھول رہی۔"
بےبسی سے بھرپور لہجہ۔

"تمہیں خود کو مزید مضبوط کرنا ہے صالح۔ یہ دنیا بہت چھوٹی ہے یہاں تم لوگوں سے بھاگ نہیں سکتے۔ تمہیں خود کو تیار رکھنا ہے ہر قسم کے حالات کے لیے۔"
اس نے اسے سمجھانا چاہا کیونکہ اس کو اپنے روم میں لاتے ہوئے راستے میں نظر آنے والے اس جانے پہچانے چہرے کو وہ بھول نہیں سکتا تھا۔ وہ سیاہ عبایہ میں ملبوس صالحہ تھی جس کے چہرے پہ نقاب نہیں تھا مگر صالح پہ نظر جاتے ہی انہوں نے نقاب چڑھایا لیا تھا۔

"مجھے اپنی زندگی میں آگے بڑھنا ہے جنید۔ اور میں بڑھوں گا۔"
ایک عزم لیے بولا۔

"صالح میری بات مان لو۔ اپنی زندگی میں ہم سفر کو شامل کر لو۔"
آج پہلی بار جنید نے اسے شادی کا مشورہ دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی من پسند انسان کی آمد سے انسان میں مثبت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اور صالح کی اس لڑکی کے بعد آنے والی تبدیلیاں اس سے پوشیدہ نہیں تھیں۔

"میں کسی انسان کو اپنی زندگی میں اس لیے شامل نہیں کروں گا کہ وہ مجھے اس ٹراما سے نکالے۔ میں ایموشنل ایڈکشن کا شکار نہیں ہو سکتا جنید کہ اپنی محرومی سے نجات پانے کے لیے میں کسی انسان کو اپنی زندگی میں شامل کروں۔ یہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔"
وہ اس کا دھیان بھٹکا چکا تھا اور اپنی اس کامیابی پہ خوش بھی تھا مگر چہرہ ہنوز سنجیدہ تاثرات لیے ہوئے تھا۔ وہ صالح کے شادی کے بارے میں تاثرات جاننے کا خواہش مند تھا اور اس کا جواب کافی خوش کن تھا۔ اسے سکون ملا کہ اس کا دوست ایک ایک ایسا انسان ہے جو اپنے دکھ کو دور کرنے کے لیے کسی دوسرے کو دکھی نہیں کر سکتا۔ اسے فخر ہوا کہ صالح منصور اس کا دوست ہے۔

"اس کا مطلب وہ والی لڑکی ہے نا؟"
شریر لہجے میں کہتا وہ اپنے ڈاکٹری روپ سے پوری طرح باہر آ چکا تھا کیونکہ صالح کے سامنے وہ زیادہ دیر اتنا سنجیدہ نہیں رہ پاتا تھا۔

"تم نہیں سدھر سکتے۔"
اس نے افسوس سے کہا۔

"ہم سدھر گئے تو دنیا سے رونقیں ختم ہو جائیں گی۔ چلنے دو جو جیسا ہے۔"
وہ اب سکون سے اپنی راکنگ چئیر پہ بیٹھ چکا تھا۔ صالح نے ٹیبل پہ موجود پانی کا گلاس تھامتے پانی پیا۔

"اب چلے جاؤ ورنہ تمہاری بھابھی نے مجھ پہ شک کرنا ہے کہ ڈیوٹی ٹائم کے بعد کہیں میں کسی ڈیٹ پہ تو نہیں چل گیا۔ یو نو کہ اتنے ہینڈسم بندے پہ بیویاں شک ہی کرتی ہیں۔ اب اسے کون بتائے کہ میں اپنے بچپن کے دوست کے ساتھ بیٹھا ہاسپٹل ڈیٹ منا رہا ہوں۔"
وہ انتہائی غیر سنجیدہ تھا اور اس کی بات پہ صالح کے سخت تاثرات بھی ڈھیلے پڑ گئے۔

ایسا ہی تو ہوتا ہے مخلص اور سچا دوست جو ہر مشکل صورت حال میں بھی آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھیر دے۔ صالح منصور خوش قسمت تھا جو اسے جنید کاظمی جیسا دوست اور ڈاکٹر ملا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب دل تمہارا اپنا ہو
اور باتیں ساری اسکی ہوں
جب سانسیں تمہاری اپنی ہوں
اور خوشبو آتی اسکی ہو
جب حد درجہ مصروف ہو تم
وہ یاد اچانک آئے تو
جب آنکھیں نیند سے بوجھل ہوں
تم پاس اسے ہی پاو تو
پھر خود کو دھوکہ مت دینا
اور اس سے جا کے کہہ دینا
اس دل کو محبت ہے
تم سے
اس دل کو محبت ہے
تم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

آیت نے معاذ کو منع کر دیا تھا کہ اب وہ اس کو پک اینڈ ڈراپ نہ دیا کرے کیونکہ مصطفٰی صاحب نے بالآخر ایک وین والا تلاش کر لیا تھا۔ ویسے بھی اب مناسب نہیں تھا کہ آیت، معاذ کے ساتھ سفر کرتی۔ وجیہہ کے گھر سے کوئی ایشو بن سکتا تھا۔ معاذ بھی ان کی بات سمجھ چکا تھا۔ وہ اپنے آفس سے واپس آ رہا تھا جب روڈ پہ ٹرن لیتے اس کی گاڑی نے سامنے سے آتی گاڑی کو تھوڑا سا ہٹ کیا۔ دونوں گاڑیوں کے مالکان دروازہ کھول کر باہر آئے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشگوار حیرت کا شکار ہوئے۔

"معاذ"
صالح نے اس سے مصافحہ کیا۔ دونوں میں رسمی بات چیت ہوتی رہی۔ اسی وقت معاذ کو نوال بھابھی کی کال ریسیو ہوئی۔

"جی بھابھی"
معاذ نے صالح سے ایک منٹ کے لیے ایکسکیوز کیا۔

"ماموں کا نمبر؟ خیریت تو ہے؟"

"آیت کا رشتہ!"
آگے سے ملنے والے جواب پہ اس کا ردعمل شاکنگ تھا۔ اس کی اونچی آواز نے صالح منصور کا سکون غارت کیا۔

"ٹھیک ہے آپ خود ان سے بات کر لیں۔ جو ان کی فیملی کو ٹھیک لگے۔"
وہ کال کٹ کر چکا تھا۔ مگر صالح منصور کا دل کٹ چکا تھا۔ ایک دو منٹ بات کرنے کے بعد دونوں اپنے اپنے راستے پہ گامزن ہو گئے۔

صالح منصور کو سب بھول چکا تھا یاد تو تھا تو بس یہ کہ معاذ نے آیت کے رشتے کے متعلق کچھ کہا تھا۔ وہ بچہ نہیں تھا جو پہچان نہیں پاتا کہ فون کی دوسری جانب کیا کہا جا رہا ہو گا۔ اس کا دل انجان احساس سے دھڑکا۔ وہ ابھی اس رشتے کے لیے تیار نہ تھا لیکن اگر اس نے دیر کر دی تو کیا ہو گا؟ وہ جان چکا تھا کہ یقینا وہ اس لڑکی کے علاوہ کسی کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنے والا تھا۔ پورا راستہ وہ مختلف نہج پہ سوچتا رہا اور آخر اس نے کٹھن فیصلہ کر لیا۔ کیونکہ وہ اس لڑکی کو نہیں کھو سکتا تھا۔
وہ جو اپنے گھر جا رہا تھا گاڑی کا رخ موڑ چکا تھا۔ نوشین آپا کے گھر پہنچ کر بیل دی تو وہ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔

"آپا ضروری بات کرنی ہے۔"
وہ نروس تھا۔

"کیا ہوا صالح؟ سب ٹھیک ہے؟"
وہ پریشان ہوئیں۔

"آپا آپ میرا رشتہ لے کر جائیں۔"
اس نے ایک ہی سانس میں بات کی اور نوشین آپا تو ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگیں۔

"تم شادی کرنا چاہتے ہو؟"
انہیں لگا انہیں سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ صالح نے اثبات میں سر ہلایا۔

"کس کی طرف رشتہ لے کر جانا ہے؟"
وہ جان چکی تھیں کہ کون ہو سکتی تھی وہ خوش قسمت جس نے صالح کو اس کے خ*ل سے باہر نکالا تھا مگر وہ اس کے لبوں سے سننا چاہتی تھیں۔

"معاذ کی کزن"
وہ اس کا نام نہیں لے رہا تھا۔

"کون؟ معاذ کی کونسی کزن؟"
انہیں بھی شرارت سوجھی۔

"وہ جو میرے والے کالج میں پڑھاتی ہے۔"
وہ آنکھیں جھکائے زمین کی جانب دیکھتے ہوئے بول رہا تھا اور انہیں اپنے بھائی پہ بے پناہ لاڈ آ رہا تھا۔

"او ہاں ہاں یاد آیا۔ وہ جس کی بہن بہت کیوٹ سی ہے خیر کیوٹ تو وہ بھی بہت ہے۔ پتا نہیں کیا نام تھا اس کا؟"
وہ مسکراہٹ دبائے تجسس سے گویا ہوئیں۔

"آپا"
وہ جان چکا تھا کہ اس کی آپا جان بوجھ کر یوں شو کروا رہی ہیں۔

"آپا کی جان۔ صدقے واری جاؤں میں تمہارے۔ اللہ نے میری دعائیں قبول کر لیں۔"
وہ اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں۔ انہیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کا صالح خود شادی کا کہہ رہا ہے۔

"آپا ایک بات پوچھوں؟"
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔

"ہاں میری جان پوچھو"

"اگر ماما واپس آ گئیں؟"
اس کا سوال انتہائی غیرمتوقع تھا۔ لمحے میں نوشین کے چہرے پہ سختی در آئی۔

" وہ مر چکی ہیں۔" اٹل انداز۔۔۔

"آپ اور میں جانتے ہیں کہ وہ صرف ایک ڈرامہ تھا۔"
زور دے کر کہا۔

"مگر میں اس ڈرامے کو حقیقت مان چکی ہوں۔ تم بھی مان لو۔اپنی زندگی میں خوشیوں کو خوش آمدید کہو۔ زیادہ مت سوچا کرو۔ میری تو حسرت پوری ہونے والی ہے۔ میں بابا کے سامنے بھی سرخرو ہو جاؤں گی۔ شکریہ صالح"
وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس کو سمجھا رہی تھیں۔ آخر میں اپنی خوشی کا اعلان کیا۔ ان کے بابا اگر زندہ ہوتے تو اس خبر پہ خوشی سے جھوم اٹھتے۔

"میں ابھی آئی۔"
وہ اس کو صوفہ پہ چھوڑے خود اٹھ کر کچن میں گئیں۔ واپس آئیں تو ہاتھ میں مٹھائی کی پلیٹ تھی۔

"منہ میٹھا کرو۔"
گلاب جامن اس کے ہونٹوں کے پاس کیا تو اس نے تھام کر واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔

"ابھی کیسے کر لوں۔ابھی تو آپ رشتہ بھی نہیں لے کر گئیں۔ اگر انہوں نے انکار کر دیا ؟ اگر اس کا رشتہ کہیں اور طے ہوا تو؟"
کچھ سہما سا انداز تھا۔

"میں نے نوال سے کہا تھا کہ مجھے پوچھ کر بتائے کہ معاذ کی کزن کی کہیں منگنی وغیرہ تو نہیں ہوئی یا کہیں رشتہ وغیرہ تو اس نے ابھی مجھے تمہارے آنے سے پہلے کال پہ بتایا کہ آیت کے بابا نے اس کے کیرئیر کی وجہ سے فلحال اس کا کہیں بھی رشتہ طے نہیں کیا۔"
بڑی اطلاع دی گئی۔

"تو وہ آپ تھیں۔"
شاک بھرا انداز۔

"کہاں؟" الجھن بھرے تاثرات۔

"کچھ نہیں"
مزید بتا کر وہ خود اپنے پیر پہ کلہاڑی نہیں مار سکتا تھا۔

" ویسے آپ نے ان سے یہ کیوں پوچھا؟"
تفتیشی لہجہ۔

"میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہی لڑکی میرے صالح کی زندگی کا حصہ بنے گی۔ تو سوچا کیوں نا اپنی اس سوچ کی پختگی سے پہلے کنفرم کر لوں۔" وہ ہنستے ہوئے بولیں۔

"اور آپ کو ایسا کیوں لگا؟"
جانے کیا جاننے کی کوشش تھی۔

"جیسے تمہیں لگا کہ وہ لڑکی تمہارے لیے اہم ہے۔ بس ایسے ہی مجھے لگا۔"

"آپا"
نروٹھے پن سے کہا۔

"اچھا بھئی اب نہیں تنگ کرتی۔ کب لے کر جاؤں رشتہ؟"

"تسلی سے لے جائیے گا۔"
اب چونکہ جان چکا تھا کہ وہ اس کی ہی آپا کی وجہ سے پوچھا گیا تھا تو دل کو سکون ملا تھا۔

"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ ایک دو ماہ تک لے جاؤں گی۔"
پرسوچ انداز میں بولیں تو صالح کے چہرے کا رنگ فق ہوا۔

"ارے دو تین دن تک لے کر جاؤں گی۔ فکر نہیں کرو۔ تم سے زیادہ مجھے جلدی ہے۔"
صالح کی جان میں جان آئی۔

"آپا ایک اور بات ہے۔"
محتاط سا انداز۔

"ہاں کہو"
"میں چاہتا ہوں کہ ایک دو ماہ میں نکاح ہو جائے۔ رخصتی ابھی نہیں چاہتا۔ میں پہلے خود کو مکمل طور پہ اس ٹراما سے نکالنا چاہتا ہوں۔"

"کب تک نکال لو گے خود کو اس تکلیف سے باہر؟"
سنجیدگی بھرا انداز۔

"میں نہیں جانتا۔ لیکن اب میں اپنے خوف سے جیت جانا چاہتا ہوں۔"
وہ جانتی تھیں کہ وہ کس خوف کی بات کر رہا ہے۔ عورت پہ یقین کرنا اس کے لیے مشکل تھا مگر اب وہ یہ مشکل کام کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ آگے بڑھ سکے۔ اپنے دل کی آواز پہ لبیک کہہ سکے۔ اس لڑکی کو بتا سکے کہ وہ اس کے لیے اہم ہو چکی ہے۔ وہ اس کے بغیر اب زندگی کا تصور نہیں چاہتا۔
دل کے فیصلے کو مان کر صالح منصور نے اپنے خوف کو چیلنج کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صالح کے جانے کے فورا بعد وہ جنید کے کمرے میں آئی تھی۔ وہ جو گھر جانے کے لیے تیار کھڑا تھا ان کو دیکھتے جہاں تھا وہیں تھم گیا۔

"آپ!"
اسے امید نہیں تھی کہ وہ اس کے پاس آئے گی۔

"صالح کے دوست جنید ہو نا تم؟"
وہ ایک بار کنفرم کرنا چاہ رہی تھی۔

"صحیح پہچانا"
لہجہ تلخ ہوا تھا۔

"اس روز میں نے ریسیپشن سے پوچھا تھا کہ تم یہاں کیا کرتے ہو تو انہوں نے بتایا کہ سائکیٹرسٹ ہو۔ صالح یہاں کیوں آتا ہے؟ مجھے صحیح صحیح بتانا بیٹا۔"
ان کا دل خدشوں کی زد میں تھا۔

"آپ کو اس سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ میں اپنے پرسنل کاموں کی ڈیٹیلز کسی سے شئیر نہیں کرتا۔ اور ویسے بھی آپ صالح کی کچھ لگتی ہیں جو میں آپ کو بتاؤں؟"
چھبتا ہوا لہجہ۔۔۔ چہرے کے تاثرات انتہائی سخت۔

"میں ماں ہوں اس کی۔"
جنید سے زیادہ خود کو باور کروایا۔

"سوری لیکن میری اطلاع کے مطابق میرے دوست صالح منصور کی والدہ پندرہ سال پہلے کار ایکسیڈنٹ میں وفات پا چکی ہیں۔" سنجدیدگی بھرا لہجہ۔۔۔ سخت الفاظ
صالحہ خاموش ہو گئی اور وہ ان پہ ایک نگاہ ڈالتا کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس نے اپنے دوست کا بچپن اور جوانی اذیت میں دیکھی تھی۔ وہ اس کے گنہگاروں کو کسی صورت رعایت نہیں دے سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوشین آپا کی خبر نے گھر میں خوشیوں کی آمد کی اطلاع دی۔ سب ہی بہت خوش تھے۔ جواد نے چھوٹے بھائی کے کندھے پہ تھپکی دی۔ شائستہ نے اس کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ شہروز نے اپنے بھائی کے اچھے نصیب کی دعا کی۔ زارا نے اس کو مبارکباد دی۔
کل انہوں نے آیت مصطفٰی کو صالح کے لیے مانگنے جانا تھا۔ اور اس بات سے یکسر بے خبر کسی رشتہ والوں کی آمد کا سن کر آیت کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔

"بابا میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔"
انگلیاں مروڑتے ہوئے سوال داغا۔

"بیٹا آپ نے کہا تھا کہ آپ کو اپنے کیریئر کے دوران شادی نہیں کرنی۔ اب تو خیر سے آپ ایک اچھی جاب کر رہی ہیں۔"
مصطفٰی صاحب نے اسے اس کی سابقہ بات یاد کروائی۔

"پر بابا مجھے آگے بھی پڑھنا ہے۔ مجھے پی ایچ ڈی کرنی ہے۔"
وہ روہانسی ہوئی۔

"تو کر لینا۔ ابھی تو ہم صرف رشتہ دیکھیں گے۔ حمدانی کے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے رشتہ آیا ہے۔ ہم انہیں انکار نہیں کر پائے۔ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہوا تو انکار کر دینا۔ لیکن ہم انہیں گھر آنے سے تو منع نہیں نا کر سکتے۔"
انہوں نے گویا اسے سمجھانا چاہا۔ وہ سر اثبات میں ہلاتی بوجھل قدموں سے کمرے میں چلی آئی۔ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ ایک پل کو بھی اس نے حمدانی صاحب کے قریبی رشتہ داروں کی جانب توجہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ تو بس رو دینے کو تھی۔

"یا اللہ میری مدد کر۔ میں نے تو نہیں چاہا تھا کہ مجھے ان سے محبت ہوتی۔ میں جانتی ہوں کہ انہوں نے تو میرے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ سدا کے لڑکیوں سے بیزار لگتے ہیں وہ تو۔ اب کیا ہو گا میرا؟"
وہ آنے والے کل کا سوچ کر ہی ایموشنل ہو رہی تھی۔

"اللہ کرے ان کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے۔ ان کو ضروری کام یاد آ جائے۔ ان کے ہاں اچانک کسی کی شادی آ جائے۔ بس وہ کوئی رشتہ نہ لے کر آئیں۔"
وہ دل سے دعائیں کرنے لگی یہ جانے بغیر کہ اگر اسے علم ہو جاتا کہ کل کس محترم کا رشتہ آنے والا تو وہ ان کی راہ میں پھول پتیاں نچھاور کرتی۔

"آپا کس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے؟"
عنایہ نے اس کی بڑبڑاہٹ سے صرف یہی واضح الفاظ سنے تھے۔

"رشتے والوں کی۔"
بول تو گئی مگر پھر زبان دانتوں تلے دبائی۔

"کوئی نہیں بے بی۔ آپ کا سکرین ٹائم پورا ہو گیا ہے نا۔"
وہ جو اسکو پندرہ منٹ کے لیے گیم کھیلنے دے کر گئی تھی اسے اب یاد آیا تھا۔

"آپا مجھے گیم نہیں کھیلنے تھی۔ مجھے تو وہ والی ویڈیو دیکھنی تھی مگر آپ کے فون کی گیلری لاک ہے۔"
وہ منہ بسور کر بولتے ہوئے انتہا کی پیاری لگی۔

"کونسی ویڈیو؟"

"بگ برو والی۔ وہ پیچھے سے کلیپنگ کی آواز آ رہی تھی۔ وہاں کیا ہو رہا تھا مجھے دیکھنا تھا۔"
وہ قرآت کمپیٹیشن والی ویڈیو کی بات کر رہی تھی۔

" مجھے تو لاک بھول گیا ہے۔ جب یاد آئے گا تو آپ کو دکھا دوں گی۔ مگر آپ کسی سے اس ویڈیو کا ذکر نہیں کرو گی۔"
وہ اس کو تنبیہ کر رہی تھی۔ پہلے ہی وہ صالح کے سامنے اس کا پھانڈا پھوڑنے والی تھی۔

"ٹھیک ہے آپا۔ میں کسی کو نہیں بتاوں گی۔ آج کا ہوم ورک رہنے دیں؟"
وہ سستی بھرے انداز میں بولی۔

"بالکل نہیں دو منٹ کا کام ہے۔ جلدی سے فنش کرو پھر ریسٹ کرنا۔"
وہ اس کو ہوم ورک کروانے لگی جو کاپی پہ لکھتے لکھتے ہی نیند میں جھول گئی۔ اس نے اسے بیڈ پہ لٹایا اور کمفرٹر اوڑھا دیا۔ ذہن اب مختلف سوچوں کے دھارے میں بہہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔
تو ریڈرز کروا دوں نکاح یا کوئی پھڈا ہو جائے😅
Rms Jani ظاہر

Address

Karachi

Telephone

+923053903193

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when I Love you posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to I Love you:

Videos

Share

Category


Other DJs in Karachi

Show All

You may also like