08/04/2024
کالج لائف تک پہنچنا ہر نوجوان لڑکا لڑکی کی خواہش ہوتی ہے. یہ ایک سحر کی طرح ہوتی ہے جو ہم پر طاری ہو کر ہمیں حقیقت سے بے خبر کر دیتی ہے.
کلاس کوریڈورز میں فرش پر چوکڑی مار کر بے تکلفی سے بیٹھ جانا اور یسو پنجو کی محفل سجانا، کنٹین پر ساتھیوں کے ساتھ موسم کی ہر رت کا مزہ لینا، ٹیچر کو دلائل سے امپریس کر کے سارا دن فخر سے گھومنا اور ساتھی دوستوں کا متاثر ہونا خود کو کالج کے ہیرو سمجھنا، بے تکلفیاں، خوش گپیاں، شرارتیں اور کالج کے در و دیوار میں گونجتے قہقہے، سب ایک دن خواب بن کر یادوں کے صحرا میں دفن ہو جائیں گے اور پاس آؤٹ ہونے کے بعد جب آپ آخری بار مڑ کر کالج کے گیٹ کو کراس کر کے پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو اپنا آپ اور باقی جونیرز وہیں ہنستے مسکراتے اور گھومتے نظر آئیں گے پھر آہیں ہوں گی، سسکیاں ہوں گی اور آپ بوجھل دل سے گھر کو لوٹ آئیں گے.
اگلا دن بہت الگ ہو گا طویل بوجھل جیسے تپتی دھوپ کا پہلا جھٹکا لگے. پھر اپنی شناخت کی جدو جہد ہو گی۔۔ اچھی یونیورسٹی کی تلاش، پھر آپکا چہرہ بھی بدل جائے گا جو کالج میں تھا ویسا نہیں رہے گا.
عملی زندگی کی حقیقت، چہرے کی معصوم لالی چھین لے گی اور چہرے پر مستقبل کے تفکر ڈیرے ڈال لیں گے. جدوجہد ہو گی کوشش ہو گی.
کالج کی اٹھکیلیاں سب بھول جائیں گی چہرے پر سنجیدگی ہو گی۔ جب عرصہ بعد آپ کالج واپس آؤ گے تو بے چینی سے ادھر ادھر دیکھ کر دیوانہ وار اپنا آپ تلاش کرنےکی کوشش کرو گے کالج کے حسین کوریڈورز پر تنہا کھڑے ہو کر گم شدہ لمحوں کو بے قراری سے آوازیں دو گے لیکن وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے پھر کینٹین کا رخ کرو گے کہ شاید وہاں کچھ مل جائے لیکن ناکام لوٹو گے وہاں تم اور تمہارے ساتھی نہیں ہوں گے لیکن وہاں بیٹھے انسانوں میں تمہیں کردار اپنے ہی نظر آئیں گے اور تم ان میں اپنا آپ محسوس کرو گے.
تمہارے فیورٹ پروفیسر تمہیں دیکھ کر کہیں گے کہ تم کتنے بدل چکے ہو تمہارے چہرے پر زندگی کی تلخیوں کی دھول کے نشان دیکھ کر کہیں گے یار تم میچور ہو چکے ہو.... وقت تمہاری سوچ تمہارا چہرہ تک بدل دے گا کبھی یادوں کو یاد کر کے رو دو گے تو کبھی روتے روتے ہنس پڑو گے.
وہ نازنین بھی تمہاری طرح وقت کی بھینٹ چڑھ جائے گی جس کے ساتھ کالج جنت لگتا تھا۔۔ گردش وقت اسے بھی بدل دے گی. وہ بھی تمہاری طرح یادوں سے لڑتے زندگی جینے کے بہانے ڈھونڈے گی وہ کہاں ہو گی، تم کہاں ہو گے، کچھ خبر نہ ہو گی، وقت تم دونوں سے بہت کچھ چھین لے گا. جب کبھی بارش ہو گی تو کالج کا آنگن اور اس کی ہنسی کی یاد تمہاری جان نکال لے گی.
جب سردیوں میں دھند راج کرے گی تمہیں تمہارے دوست گرم چادر میں لپٹے کالج کے خوبصورت گراونڈ میں مسکراتے نظر آئیں گے. جب کبھی عمدہ سموسے کھانے لگو گے تو ایک دم دوستوں کی چھینا جھپٹی اور سوس کے لیے کنٹین پر ہنگامہ کرتی آواز سنائی دے گی تم کھاتے کھاتے رک جاؤ گے اور رو دو گے لیکن وقت پھر سوچ کو دھکا دے گا تم آگے بڑھ جاو گے.
سنو یہ تمہاری کہانی نہیں پنجاب کالج کے آنگن میں نہ جانے کتنی کہانیاں دفن ہیں اور سسکیاں لے رہی ہیں۔ کچھ ادھوری کچھ مکمل. پھر تم اس راستے سے کترا کر گزرو گے جو کالج کو جاتا ہو گا تم سوچو گے بار بار یادوں کی اذیت کیوں سہنی پھر تم زمانہ کی گرد میں کھو کر کہیں ایک ان کہی ایک کہانی بن جاؤ گے 😕